جس طرح قانونِ ارتقاء کی رو سے بنی نوع انسان حیات کے ابتدائی درجے سے ترقی کرکے متنوع تبدیلیوں کے بعد موجودہ صورت اور حالت تک پہنچا، بعینہٖ انسانی تمدن بھی مدورِ ایام کے تغیرات کی بدولت درجہ بہ درجہ بڑھوتری اور زینہ بزینہ معراج کے مدارج طے کرکے پتھر کے عہد سے راکٹ سائنس کے محشر تک آیا ہے۔
صفت ِنسبتی کی رو سے قصباتی اور دیہاتی کے تقابل میں شہری بودو باش نے ملکِ فارس کے جزیرہ ٔ مارکاںکی طرح اسفل سے اعلیٰ کی طرف ترقی کی۔ زرعی دور کے معروضی انسان کا عمومی رجحان زرخیز میدانوں کی طرف جب کہ صنعتی عہد کے انسان کا میلان گاؤں کھیڑوں کے بجائے آسودہ حال بستیوں اور فراخ شہروں کی جانب رہا، یہی وجہ ہے کہ صحراؤں، میدانوں اور ریگستانوں میں بسیرا کیے ہوئے قبائل نہ صرف جدید ریاستی لوازمات سے محروم رہے بلکہ زندگی کی بنیادی سہولیات و ضروریات بھی انھیں کبھی میسر نہ آسکیں۔
صحرائے تھر بھی پاکستان کا ایک ایسا ہی خطہ ہے جس پر وفاقی حکومتوں نے تو کیا سندھ کی صوبائی و مقامی حکومتوں نے بھی کبھی توجہ نہیں دی ٗ تھر کے باشندے موسموں کے سرد و گرم جھیلتے ہوئے ہمیشہ ہی اپنی مدد آپ کے تحت زندہ رہنے کے جتن کرتے رہے ہیں ٗ سمندر کے کنارے آباد شہرسے چارسوکلو میٹر کے فاصلے پر دو لاکھ مربع کلو میٹر پر ریت کا سمندر پھیلا ہوا ہے جہاں زندگی بوند بوند کے لیے ترستی ہے ٗ مکوڑہ نما انسانوں کو پیٹ بھر کھانا میسرنہیں ٗ اس بے آب و گیاہ خطے میں اتنے پھول کھلتے نہیں جتنے مرجھا جاتے ہیں ٗ مور کی جگہ موت رقص کرتی ہے، زہریلے سانپ اور کالے بچھو وہاں کے باسیوں کا جینا دوبھر کرتے ہیں ٗسالوں سے آباد مکینوں کے سر پر صرف آباو اجداد کی روایت اور ثقافت کا سائباں ہے ٗ جب بادل روٹھتے ہیں تو تھر کے باسی مختصر عرصے کے لیے صرف ٹھکانہ بدلتے ہیں ٗیہاں تک کہ سانس کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے لیکن قاتل صحرا سے رشتہ نہیں ٹوٹتا۔ بمصداق کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، تھر اور اس کے تھرائے ہوئے باسیوں کی خدائے لم یزل نے آخر سن ہی لی اوروہاں جیسے سوکھے دھانوں مینہ برسنے لگ پڑا ہے۔
اس عہدِ جدید میں اب پتھر پر ہتھوڑے کی ضرب نہیں لگتی بلکہ جدید مشینری اور اسے استعمال کرنے والے آ ہنی انسانی ہاتھ بنجر اور بے آب و گیاہ زمین سے خوش حالی پھوٹنے کا یقین لیے، مایوس چہروں پر امید کی کرن بکھیرنے کی سعی میں مصروف ہیں جس کا چشم دید مشاہدہ کرنے کے لیے ہمیں بھی مدعو کیا گیا۔
گزشتہ دنوں ہم سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی گئے تو سی پی این ای سیکریٹری جنرل اعجاز الحق نے ہمیں بتایا کہ سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹوآفیسر شمس الدین شیخ کی شدید خواہش ہے کہ سی پی این ای کے عہدیداران اس اہم ترین اور غیر معمولی منصوبے کا دورہ کریں اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور ہماری رہنمائی کریں تاکہ منصوبے میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کر کے آئیڈیل بناسکیں ٗہم نے ان کی خواہش کو قبول کیا کیونکہ ہمیں خود تجسس تھا کہ ہم تھر جیسا علاقہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں جس کی خوفناک کہانیاں ہم نے سن رکھی تھیں ٗہم سی پی این ای کے جنرل سیکریٹری اعجاز الحق کی قیادت میں تھر روانہ ہوگئے اور وہاں کمپنی کے سی ای او شمس الدین شیخ نے ہمیں جامع بریفنگ دی۔
انہوں نے ہمیں منصوبے کا معائنہ بھی کرایا ٗسی پی این ای کے عہدیداران اورسٹیڈنگ کمیٹی کے ارکان و ممبران جو تھر گئے ان میںشاہین قریشی‘اعجاز الحق‘امتیاز عالم‘قاضی اسد عابد‘عامر محمود‘رحمت علی رازی‘غلام نبی چانڈیو‘ ڈاکٹر جبار خٹک‘ صدیق بلوچ‘ انور ساجدی‘ جاوید مہر شمسی‘ سید منیر جیلانی‘ مشتاق احمد قریشی‘ وقار یوسف عظیمی‘ کاظم خان‘ سید ممتاز شاہ‘ مقصود یوسفی‘ ممتاز احمد صادق‘ طاہر نجمی‘ مبشر میر‘ عبدالرحمان منگریو‘ عبدالخالق علی‘ بشیر احمد میمن‘ عرفان قاضی‘ زاہدہ عباسی‘ حسینہ جتوئی‘ تانیہ بلوچ‘ بلقیس جہاں اورروبینہ رشید شامل تھیں۔
سی پی این ای کے صدر جناب ضیاء شاہدناسازیٔ طبع اور مجیب الرحمان شامی مصروفیت کی وجہ سے تھرکول منصوبے پر نہ پہنچ سکے۔ جب ہم تھرکول سائٹ پر پہنچے تو سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شمس الدین شیخ ‘جنرل منیجر بریگیڈئیر ریٹائرڈ طارق لاکھیراور میڈیا منیجر محسن ببر نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا ٗآخر میں ہمارے ہاتھوں سے یادگاری پودے بھی لگوائے گئے جو ہماری آئندہ نسلیں ان تناور درختوں کو دیکھ کر ہمیں ضرور یاد کریں گی۔
شمس الدین شیخ نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ تھرپارکر ضلع 19638مربع کلومیٹر پہ پھیلا ہوا دنیا کا سب سے بڑا واحد زرخیز اور سرسبز وشاداب صحرائی خطہ ہے جو سندھ کے تمام اضلاع میں سب سے نچلی سطح کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (انسانی ترقی کا اعشاریہ ) رکھنے والا ضلع بھی ہے جس کا 46 فیصد علاقہ صحرا پر مشتمل ہے ٗتھرپارکر کی 80 فیصد آبادی ہندو جب کہ 20 فیصد مسلم ہے جس میں 95 فیصد صوفی سنّی اور شیعہ جب کہ 5فیصد دیوبندی اور اہلحدیث ہیں ٗ دنیا کے چند بڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ایک تھر میں موجود ہے جس کا اندازہ 170 بلین ٹن لگایا گیا ہے اور ایک واحد علاقے میں یہ شاید دنیا کا واحد اتنا بڑا کوئلے کا ذخیرہ ہے ٗتھر میں جس جگہ کوئلے کے ذخائر موجود ہیں اس کو’’ تھر کول فیلڈ‘‘ کہا جاتا ہے اور اسے 14 مختلف بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
صحرائے تھر کو دنیا کے نویں بڑے صحرا کا درجہ حاصل ہے جس کی پہچان بھوک، افلاس اور ایڑیاں رگڑتی بے یارو مددگار زندگی کے سوا کچھ نہیں لیکن اقتصادی راہداری جیسے گیم چینجرمنصوبے نے اس تاریک صحرا کی تاریخی علامت بدل کر رکھ دی ہے۔ انرجی سیکٹر میں چین کی تھری گارجز کمپنی اور چائنا پاور جیسی بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ سی پیک کے 466 ارب ڈالر کے منصوبوں میں ہوا، سولر، ہائیڈل، کوئلے، ایل این جی سے بجلی پیدا کرنے کے 21 منصوبوں کی مالیت 33.8 ارب ڈالر ہے جن میں سندھ کے لیے پورٹ قاسم پاور پلانٹ،داؤد ونڈ فارم، جمپیر ونڈ فارم، سچل ونڈ فارم، چین سونیک ونڈ فارم، نوابشاہ ایل این جی ٹرمینل کے ساتھ ساتھ اینگرو تھر پاور پلانٹ اور تھرکول بلاک ون اینڈ ٹو خاص اہمیت کے حامل منصوبے ہیں۔
تھرپارکر اور اس کے قرب و جوار کے علاقے خصوصاً بلاک ٹو میں ہونے والے تعمیراتی منصوبے یقیناً تھر کی قسمت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نصیب میں بھی چار چاند لگائیں گے۔ وفاق اور سندھ حکومت کوئلے کے ان ذخائر کو بروئے کار بنا نے کے لیے تمام تر تعاون کر رہی ہیں جس سے آئندہ دو سو سال تک پاکستان بجلی میں خود کفیل ہو جائے گا۔ رہائشی منصوبے،تھر کول اینڈ پاور پراجیکٹ،تعلیم ،صحت، روزگار اور واٹر پلانٹ تھر کی دم توڑتی زندگی میں نئی روح پھونکنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔مقامی افراد کو روزگار کی فراہمی کے لیے رجسٹرڈ کرنا اور تربیت فراہم کر نے کی ذمے داری سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے اپنے سر لی ہے۔
یہ پراجیکٹ بھی سی پیک منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی ،حکومتِ سندھ اور چائنا پاور انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی کے اشتراک سے صرف تھر سے برآمد ہونے والے کوئلے کی بنیاد پر 6 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنیوالے پاور پلانٹ پر مسلسل کام جاری ہے۔تھر کی پیاسی ریت کے نیچے موجود کوئلہ اتنی وافر مقدار میں ہے کہ سعودی عرب اور ایران کا تیل اکٹھا کریں تو بھی ہمارے پاس پچاس بلین زائد ذخائر ہیں۔
پراجیکٹ پر فرائض سر انجام دینے والا ملکی اور چینی عملہ نہایت چاق و چوبند اور نئے جذبے، ولولے کے ساتھ تھر کا مستقبل روشن کرنے میں مصروف ہے۔ پیاسے تھری باشندے نئی تبدیلیوں کو قبول کرنے کے علاوہ اپنی خدمات بھی پیش کر رہے ہیں۔ ڈرائیور،کرین آپریٹر کے طور پر ان کی تربیت کے بعد انھیں بر سرِ روز گار کیا جا رہا ہے۔
تھر سے نکلنے والا کوئلہ نہ صرف بجلی کی پیداوار میں اضافہ کریگا بلکہ دو سو سال تک کی مدت کے لیے بجلی وافر مقدار میں موجود ہوگی۔ اس کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع ہونے کے بعد ملک میں بجلی نہایت ارزاں نرخوں پر دستیاب ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔
خوشحال پراجیکٹ کے تحت نو تعمیر شدہ مکانات،اور پاور پلانٹ، تھر کی تپتی،پیاسی سر زمین جہاں کے باسی صدیوں سے بھوک اور پیاس کے ننگے ناچ پر مجبور امید و نومیدی کے چراغ جلائے نہ جانے کس کی آس پر سانسوں کی ڈور کو تھامے جئے جا رہے ہیں۔ پنجر نْما جسم، دھنسی ہوئی آنکھیں،سو کھی زبانیں ،خالی پیٹ اورزندگی کو ترستی روحیں،یہ ہے تھر کی وہ مخلوق جسے تھری کہا جا تا ہے۔ ایسا کیا ہے جو تھر کی دھرتی میں نہیں ہے۔قدرتی وسائل سے مالا مال اور مصنوعی مسائل کے انبار سے لدی اس سر زمین کی دنیا میں اور کو ئی مثال نہیں۔
پنجاب کی زرعی زمینیں ہوں یا خیبر پختونخوا کے خوشنما اور دلفریب سیاحتی مقامات ،بلوچستان کے معدنی وسائل کی بات ہویا سندھ کے کوئلے کا ذکر، سندھ کی مٹی ان سب سے کچھ الگ ہی تاثیر لیے ہو ئے ہے۔ یہاں زرعی زمینیں بھی ہیں اور معدنی وسائل بھی، سیاحتی مقامات سے لے کر صحراؤ ریگستان اور سمندر سے لے کر دریا اور جھیلیں، سب قدرت کی صناعی کے انعامات کی صورت موجود ہیں۔فقدان ہے تو بس نیت کا۔چلو شکر ہے صحرائے تھر کے اعلیٰ کوالٹی کے کو ئلے کے ذخائر کو استعمال میں لانے کے لیے سندھ حکومت حرکت میں آئی ہے۔
تھرکول پاور پراجیکٹ پر دو کمپنیاں ’’سندھ اینگرو کول مائن کمپنی(ایس ای سی ایم سی)اور ’’اینگرو پاور تھر لمیٹڈ‘‘ (ای پی ٹی ایل) کام کر رہی ہیں۔اس منصوبے میںبنیادی طور پر سندھ حکومت تعاون کر رہی ہے۔دیگر تعاون کار کمپنیوں میں ’’اینگرو‘‘، ’’حبکو‘‘، ’’سی میک‘‘ ،’’ایچ بی ایل‘‘ اور’’لبرٹی‘‘ شامل ہیں۔ سندھ حکومت 50 فی صد شیئرز کی مالک ہے جس نے نہ صرف اینگرو کو زمین خرید کر دی بلکہ نہایت خوبصورت اور بہترین سڑک بنا کر دی۔ بنیادی طور پر اس منصوبے کا مقصد بجلی کی پیداوار ہے۔
تھر کے کو ئلے کے ذخائر بین الاقوامی معیار کیمطابق ہیں اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا ذخیرہ ہے جس سے مجموعی طور پر ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو اگلے پا نچ سو سال کے لیے کا فی ہوگی۔ڈاکٹرثمر مبارک مند کا منصوبہ اس لیے کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا کہ وہ گیس فکیشن کے عمل کے ذریعے سے بجلی کی پیداوار چاہتے تھے جو اس لیے ممکن نہ تھا کہ ہمارے کو ئلے میں نمی کا تناسب زیادہ ہے جب کہ اس کو ئلے کو زمین سے باہر نکال کر استعمال کرنا ہوگا جسے تکنیکی اوپن پٹ مائن کہتے ہیں ٗ اس طریقہ کار میں کو ئلہ نہ صرف قابلِ استعمال ہو گا بلکہ وہ پانی جو نمی کی صورت مو جود ہے اللہ پاک کی ایک نعمت ہے جو پاور پلانٹ کی چمنیوں کو ٹھنڈا کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
تھر کوئلے کی مزید خصوصیات یہ ہیں کہ کو ئلے کی عالمی درجہ بندی پر ہمارا کوئلہ مکمل طورپر پورا اترتا ہے۔ درجہ حرارت، سلفر، نمی،سٹرپنگ ریشو اور راکھ وغیرہ سب بین الاقوامی کول اسٹینڈرڈ کے عین مطابق ہیں۔ درج بالا حقائق کے تناظر میں پاکستانی کو ئلہ استعمال کے لیے حد درجہ موزوں ہے۔ تھرکول پاور پراجیکٹ کی مختلف جگہوں پر چینی انجینئرز کام کرتے نظر آتے ہیںجس کی وجہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے۔اس منصوبے پر نہایت تیزی سے کام جاری ہے اورجون 2017ء تک اسے مکمل کر لیا جا ئیگا، اس طرح 6600 میگاواٹ نیشنل گرڈ میں شامل ہو جا ئیں گے۔
ابتدائی طور پر اس کی پیداوار کو 4000 میگا واٹ تک لے جا یا جائے گا۔بعدازاں اس کی پیداوار میں بتدریج اضافہ ہو تا رہیگا۔اس منصوبے کا تخمینہ سوا دو سو ارب روپے رکھا گیا ہے تاہم یہ ہے کہ ایک ایسا منصوبہ جو پاکستان کی ترقی کا رخ بدل دے گا وہ تھر کے لیے کس طرح فا ئدہ مند ہو گا اوروہ تھر جو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، اس منصوبے کے ثمرات سے کیسے مستفید ہو گا ؟ اس کا جواب شمس الدین شیخ نے یہ دیا کہ تھر باسیوں کے لیے ’’ تھر خوشحال پروگرام‘‘ متعارف کرایا گیا ہے۔ اس وقت بلاک 2 میں کام جاری ہے۔ بلاک 2 میں 8 گاؤں اور کچھ دھانیاں ہیں۔
(سندھ میں50 سے کم گھروں پہ مشتمل آبادی کو دھانی کہا جاتا ہے) ٗاس منصوبے کا سب سے اہم اور مشکل کام اس بلاک میں موجود دو گا ؤں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا تھا۔لوگ اپنا آبائی گھر چھو ڑنے کو تیار نہ تھے۔ اس مقصد کے لیے اینگرو نے انھیں ماڈل ہوم بنا کر دکھایا جس کے مطابق ایک ہزار گز پر مشتمل ایک خاندان کو جدید خطوط پر استوار گھر بنا کر دیا جائے گاجس میں تین کمرے،ایک بیٹھک،مویشی رکھنے کی جگہ اور ’’چورا‘‘ ہو گا۔
چورا تھر کے باسیوں کی ثقافت کا ایک اہم جزو ہے اور ان ہی کی خواہش پر اسے گھروں میںشامل کیا گیا ہے ٗان گھروں کو دوسماجی آبادیوںمیں تعمیر کیا جا ئیگا، مسلم اور ہندو۔ان کمیونٹیز میں تمام سہولیات میسر ہوں گی جن میں مسجد، مندر ،اسکول ،اسپتال ،جانوروں کا اسپتال اور بازار وغیرہ شامل ہونگے ٗقابلِ تعریف بات یہ ہے کہ اس گھر کے نقشے میں خواتین کی رائے کو خاص اہمیت دی گئی ہے چنانچہ یہ گھر دستاویزاتی طور پر خواتین کی ملکیت ہونگے اور ایک گھر کی لاگت 15 سے 17 لاکھ کے درمیان ہو گی۔
تعلیم کے حوالے سے اینگرو نے مہران انجینئرنگ یو نیورسٹی کے تعاون سے ’’مائننگ اسکالر شپ پروگرام‘‘ بھی شروع کیا ہے جس میں صرف تھرکے نو جوانوں کو داخلہ دیا جائے گا۔ٹیکنیکل ایجوکیشن کے حوالے سے بھی کئی پروگرام اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ ان پروگراموں کے تحت مختلف ٹریڈز میں تھری نو جو انوں کو تربیت دی جا ئیگی جن میں پائپنگ ،پلمبرنگ، شٹرنگ ، سکیفولڈنگ وغیرہ شامل ہیں ٗاس پروگرام میں اب تک 5670 تھرکے نو جوان رجسٹرڈ ہو چکے ہیں ٗ تھربلاکII سے 200 کے قریب نو جوان اپنی ابتدائی تربیت کے بعد اس پراجیکٹ پر کام شروع کر چکے ہیں۔
ٹرانسپورٹ اس منصوبے کا بنیادی عنصر ہے ٗاس حوالے سے ڈرائیونگ کی خصوصی تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ٗتھرکے مرد و خواتین جنھیںڈرائیونگ آتی ہے انھیں نیشنل ہا ئی وے اتھارٹی (این ایچ اے) سے تربیت دلوائی گئی ہے جو اس منصوبے پراب باقاعدہ ڈرائیور کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیںاوران کی کم سے کم تنخواہ 25 ہزار مقرر کی گئی ہے ٗاس پروگرام کے تحت 37 خواتین ٹرک چلانے کی تربیت لے رہی ہیں۔ صحت کے حوالے سے ’’ماروی مدر اینڈ چائلڈ‘‘ میں آغا خان کے ڈاکٹرز تھرکے لوگو ں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں جب کہ انڈس اسپتال کے حوالے سے بڑا منصوبہ زیرِ غور ہے۔
ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اٹھنے والے تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ کئی مقامی و بین الاقوامی کمپنیوں نے سروے کے بعد جو رپورٹ جاری کی ہے ، اس کے مطابق یہ منصوبہ ہر لحاظ سے ماحول دوست منصوبہ ہے تکنیکی لحاظ سے 100 میٹر کی اونچائی سے بلند آلودگی کے عناصر پنپ نہیں پاتے، یہی وجہ ہے کہ عالمی معیار کے مطابق اس طرح کے پراجیکٹس کی چمنیاں 120 میٹر تک کی اونچائی پر ہوتی ہیں ٗاس پراجیکٹ میں چمنیوں کو 180 میٹر تک اٹھا یا گیا ہے تا کہ کسی قسم کا سقم نہ رہے۔ تھر کے لوگ جو اس جدید دور میں بھی صدیوں پرانی زندگی جینے پر مجبور ہیں ٗان کے لیے یہ پراجیکٹ سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
چند سال قبل تھر کی زمین سے ترقی کے خزانے کی تلاش شروع ہوئی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ صحرائے تھر میں 1980ء میں کوئلے کی دریافت ہوئی لیکن اس دوران کبھی حکومتی عدم توجہی آڑے آئی تو کبھی ناقص منصوبہ بندی سمیت کئی افواہوں نے قوم کو قیمتی معدنیات سے فائدہ اٹھانے سے محروم رکھا تاہم اقتصادی راہداری منصوبہ خزانے کی تلاش کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو عبور کرگیا اور ایک سال میں تھر تک پہنچنے کا راستہ ہی بدل گیا ٗسجاول سے اسلام کوٹ تک بچھی پکی سڑک دیکھ کر سندھ پر پنجاب ہونے کا گماں ہونے لگا۔
بلاک ٹو میں کان کی کھدائی کا کام ترقی کے مراحل طے کررہا ہے۔ ایک اعشاریہ نو پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے جاری تھرکول پاور پراجیکٹ کا پہلا مرحلہ 2017ء میں نہیں توممکنہ طور پر 2019ء میں مکمل ہوگا۔ کان کے قریب 660 میگا واٹ کی گنجائش کا حامل بجلی گھربھی قائم کیا جارہا ہے جس سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ ابتدا میں 10 سینٹ ہوں گے جو 8سال کے اندر کم ہو کر 5.5 سینٹ فی یونٹ رہ جائیں گے۔
اوپن پٹ کول مائن کے قریب بھاگتی دوڑتی بھاری مشینری دو سالوں کے بعد ملنے والی خوشخبری کی ضمانت دے رہی ہے توکان کی کھدائی کے منصوبے نے تھرپارکر کے مکینوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کردیے ہیں جس کی بدولت صحرا میں کھیتی باڑی پر انحصار کرنیوالے مزدوری کرنے لگے، گھر سے دور دو وقت کی روٹی کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے اب ٹرک چلاتے ہیں ،ڈرائیونگ کی تربیت کے لیے اسلام آباد تک جاتے ہیں، یہی نہیں بلاک ٹو میں ڈسپنسری بھی بن گئی ہے، اسکول بھی ہے اور کان کے راستے میں آنے والے دو دیہاتوں کی ری لوکیشن کا منصوبہ بھی تیارہے۔
ماڈل ٹاؤن، میٹرو پولیٹن سٹی سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔پانی کا مسئلہ بھی قریباً حل ہوہی گیا ہے۔ آراو پلانٹس لگے ہیںجو فعال بھی ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ بالعموم پاکستان اور بالخصوص تھر کو اگر اس منصوبے سے تھوڑا سا بھی فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے تمام حلقوں کی جانب سے تنقید برائے تعمیر کے پہلو کو مد نظر رکھنا انتہائی اہم ہوگا تاکہ ترقی کا یہ سفر کسی خوشگوار منزل تک پہنچ سکے۔
تھر میں کوئلے کی کان کے منصوبے میں پیش رفت کے بعد ملک کے بڑے صنعتی ادارے اور چینی سرمایہ کاروں کی کوئلے کے حصول میں دلچسپی کے پیشِ نظر ایس ای سی ایم سی کوئلے کی کان کی گنجائش 6 سال میں 19 ملین ٹن تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ٗ کوئلے کی کان اور بجلی کی پیداوار میں آئندہ 3 سال کے دوران مزید 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے جس سے مجموعی سرمایہ کاری 4.5 ارب ڈالر تک بڑھ جائے گی۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کا منصوبہ کسی بڑی رکاوٹ کے بغیر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور نئے سرمایہ کاروں کی آمد کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔
کوئلے کی کان کی تعمیر کے سلسلے میں20 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے اور کان کی گہرائی سال 2018ء کے اختتام تک کوئلے کے ذخائر تک پہنچ جائیگی جس کے بعد جون 2019 میں منصوبے سے 660 میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع کردی جائیگی۔ ایس ای سی ایم سی کا منصوبے میں پیش رفت کے بعد پاکستان کے بڑے صنعتی ادارے اور سرفہرست چینی سرمایہ کار پاور پراجیکٹس کے لیے تھر کا کوئلہ حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کررہے ہیں۔
دوسری جانب حکومت ِپاکستان نے بھی مستقبل میں تمام پاور پلانٹس تھر کے کوئلے پر چلائے جانے کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ایس ای سی ایم سی سے کوئلے کی پیداواری گنجائش بڑھانے کی درخواست کی ہے ٗ تھر کے کوئلے کی طلب کو دیکھتے ہوئے ایس ای سی ایم سی نے 2022ء تک کوئلے کی پیداوار 19 ملین ٹن سالانہ تک بڑھانے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے جس سے 3300 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔
کوئلے کی مقامی پیداوار کے امپورٹ کا متبادل بننے سے زرمبادلہ کی بچت 2030ء تک بڑھ کر 3 ارب 40 کروڑ ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گی تاہم کوئلے کی پیداواری گنجائش میں اضافہ 6 مراحل میں کیا جائے گا ٗ کوئلے کی پیداوار میں اضافہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا ذریعہ بنے گا ٗ بجلی کی پیداوار میں 50 سے 60 فیصد کوئلے کی لاگت شامل ہے۔
ادھر تھر کے منصوبے سے پیداوار 19 ملین ٹن تک بڑھائے جانے سے تھر کے کوئلے کی (برننگ ویلیو کے لحاظ سے) قیمت ابتدائی قیمت کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم ہوجائے گی جس سے بجلی کی پیداواری قیمت پر بھی نمایاں فرق پڑے گا ٗ ابتدائی مرحلے میں تھر کے کوئلے کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 6 ڈالر سے زائد ہے جو 19 ملین ٹن سالانہ کی گنجائش تک پہنچنے کی صورت میں 3.3 ڈالر جب کہ 2031ء سے آئندہ عرصے کے لیے ڈھائی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت پر کوئلہ ملتا رہیگا۔
کان کنی اور پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے 3 ارب ڈالر کے منصوبے پر اب تک 50 کروڑ ڈالر خرچ ہوچکے ہیں ٗ کان کے ساتھ پاور پلانٹ کی تعمیر بھی تیزی سے جاری ہے ٗ کان کی تعمیر کا کام 42 مہینوں میں مکمل ہونا تھا تاہم اب منصوبے کی رفتار دیکھتے ہوئے امید ہے کہ 38 مہینوں میں ہی کان کی تعمیر مکمل کرلی جائے گی ٗ چینی کرنسی ین کی قدر کم ہونے اور ڈیزل کی قیمت میں کمی کی وجہ سے منصوبے کی لاگت 10 سے 15فیصد کم ہوچکی ہے اور کان کنی کے منصوبے پر ابتدائی 845 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا تخمینہ کم ہوکر 735 ملین ڈالر رہ گیا ہے۔
تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے میں ملک کے دیگر بڑے سرمایہ کار گروپس کی شمولیت اور سندھ اینگرو کول مائننگ کا منصوبہ آگے بڑھنے سے دیگر بلاکس میں سرگرمیاں شروع ہونے والی ہیں ٗ سندھ اینگرو کول مائننگ منصوبے میں 2020ء تک تھل نووا اور تھل انرجی لمیٹڈ مزید 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گی جس میں سے 1 ارب ڈالر پاور پلانٹ اور 50 کروڑ ڈالر کان کنی میں انویسٹ کیے جائیں گے جب کہ اس سرمایہ کاری کے بعد تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار 1320 میگا واٹ تک بڑھ جائیگی۔
سرمایہ کاری کا سلسلہ یہاں پر ہی نہیں رکے گا، مزید 2بڑی کمپنیاں تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے میں دلچسپی لے رہی ہیں جن کی شمولیت 2022ء تک متوقع ہے جس کے بعد تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار 2300 میگا واٹ سے تجاوز کرجائے گی ٗ تھر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے میں اینگرو پاورجن تھر 330 میگا واٹ کے 2 پاور پلانٹس کی تعمیر میں 1.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہی ہے جب کہ سندھ حکومت کی 51 فیصد حصہ داری ہے، سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کان کنی میں 845 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے 3.8 ملین ٹن سالانہ کوئلہ مہیا کریگی ٗ منصوبے کے لیے بنیادی سہولتوں میں سندھ حکومت مزید 1 ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کررہی ہے۔
تھرکول پاور پراجیکٹ کے تحت زہریلے پانی کی نکاسی اور اس کا ذخیرہ اور اس حوالے سے بیدخل ہونے والے لوگوں کی دوبارہ آباد کاری بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ٗاس مقصد کے لیے 28 ’’ڈی واٹرنگ ویل‘‘ کھدائی کی جگہ کے اردگرد نصب کیے جائیں گے ٗ اس وقت سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی بلاک II کا زہریلا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے جس جگہ ڈیم تعمیر کررہی ہے وہ تحصیل اسلام کوٹ میں یونین کونسل گرایانچو کا دیہہ مٹھارو چھوٹو میں واقع ہے اور یہ بلاک 2 سے 26 کلومیٹر دور ہے اور اس جگہ پر نہ صرف کوئلے کی کھدائی کے دوران نکلنے والے پانی کو ذخیرہ کیا جائے گا بلکہ یہیں پر کول پاور پلانٹ سے نکلنے والا زہریلا پانی بھی جمع کیا جائے گا ٗ کوئلے کی کان سے حاصل ہونے والا نمکین پانی بائیو سیلین ایگریکلچر کے لیے استعمال کیا جائے گا جس سے تھر کے وسیع علاقے میں زرعی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا ٗ اس مقصد کے لیے چینی مہارت سے استفادہ کیا جائے گا۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ تھرکول تکنیکی اور معاشی اعتبار سے توانائی کے حصول کے لیے مناسب اور سستا ترین ملکی ذریعہ ہے جو پاکستان کی مستقبل کی توانائی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے دیرپا ثابت ہوگا اور انشاء اللہ العزیز تھر اس قدر ترقی یافتہ علاقہ بن کر ابھرے گا کہ دنیا میں پاکستان کی پہچان بنے گا اور لوگ پاکستان کو تھر کی نسبت سے ہی جانیں گے۔