موضوع قدرے سنجیدہ اور علمی نوعیت کا ہے امید ہے آپ اسے برداشت کرلیں گے کیونکہ مقصد قارئین کی ذہنی تربیت بھی ہے ۔ ہمارے ملک میں آج کل روشن خیالی کا بڑا چرچا ہے جو میرے نزدیک مذہبی شدت پسندی بلکہ مذہب کے نام پر دہشت گردی کے خلاف ردعمل ہے۔ ردعمل کے اپنے تقاضے اور اپنی قوت ہوتی ہے جو کبھی کبھی اسے بے لگام بھی کر دیتی ہے ۔ اس صورتحال نے ہمارے ہاں روشن خیالی کی تحریک کو ابھارا ہے جو اپنے طور پر خوش آئند پیش رفت ہے بشرطیکہ یہ روشن خیالی مادر پدر آزادی کی علمبردار نہ ہو اور مذہبی و اخلاقی روایات سے فرار کا ملفوف ایجنڈا نہ ہو یہ کشمکش تاریخ کا حصہ ہے اور دنیا کے ہر معاشرے کو کسی نہ کسی منزل پر اس کشمکش سے گزرنا پڑا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اجتہاد کو اسلام کی روح اور بقا کا راز قرار دیا تاکہ اسلام زندگی کے بدلتے تقاضوں کا ساتھ دے سکے اور اجتہاد کے لئے بنیادی اصول بھی واضح کر دیا۔ وہ اصول ہے کہ اجتہاد قرآن و سنت کی حدود کے اندر جائز ہے اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے انحراف کرنے والا اجتہاد قابل قبول نہیں ۔
ہمارے ہاں روشن خیالوں کے نمایاں دو گروہ ہیں اول وہ جو اپنی روشن خیالی کو اسلامی و دینی حدود کا پابند سمجھتے ہیں اور دوم وہ جو روشن خیالی کو ان حدود سے ماورا سمجھتے ہیں۔ مثلاً میں نے ایک ڈاکٹر صاحب کو دوبار ٹی وی پروگراموں میں یہ کہتے سنا کہ ہمیںمذہبی احکامات سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہئے اس طرح کی روشن خیالی الحاد کی حدوں کو چھوتی ہے چنانچہ اس سے وہی لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں جو اسلامی اصولوں سے بالاتر آزادی کے طلب گار ہیں۔ یہ لوگ اسے روشنی کہتے ہیں جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اسے تاریکی اور الحاد کہتا ہے کیونکہ جہاں مذہب کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے الحاد کی راہیں کھلتی ہیں ان حضرات کے نزدیک ہر قسم کی قانون سازی اور آزادی روشن خیالی کی راہیں کھولتی ہے جن میںجنسی آزادی، ہم جنس پرستی، پینے پلانے وغیرہ کی آزادیاں بھی شامل ہیں ۔ کچھ اس کا کھلے الفاظ میں کچھ دبے انداز میں اور کچھ ملفوف انداز میں اس کا اظہار کرتے ہیں اور مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ چند ایسے مسلمان ممالک کی مثالیں بھی دیتے ہیں جہاں ان کے بقول مساجد کے ساتھ ساتھ مے خانے، قحبہ خانے اور ناچ خانے بھی موجود ہیں جبکہ دین دار روشن خیالوں کا بہانہ یہ ہے کہ ایسی مثالیں ہمارا رول ماڈل نہیں، ہمارا رول ماڈل اسلامی معاشرہ ہے جس کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جاتی ہیں دینی حدود سے ماوراء روشن خیالی کے مکتبے سے ایک ماڈ ریٹ روشن خیال طبقے نے جنم لیا ہے جو باقاعدہ یہ تحریک چلا رہا ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ اور عقیدہ ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یعنی مذہب اور سیاست زندگی کے الگ الگ خانے یا شعبے ہیں اس بیانیہ کی تہہ میں وہی خواہش پوشیدہ ہے کہ ملکی نظام کو انہی اصولوں سے آزاد کروا کر ہر قسم کی آزادی حاصل کی جائے مذہب اور سیاست کو ا لگ الگ سمجھنے والے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے ورنہ تو ایسا بیانئے ہی جاری نہ کریں ان کو اگر سمجھا یاجائے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کے دور میں تو سیاست اسلامی اصولوں کے تابع تھی اور اسلامی ریاستی زندگی کا حصہ تھی تو وہ اجتہاد کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ ہر اسلامی ملک میں سیاست مذہبی اصولوں کے تابع ہوتی ہے ان اصولوں سے ماورا نہیں ۔ یہ روشن خیال گروہ اپنی فکر یا بیانئے کا جواز دو حوالوں سے دیتا ہے۔ اول اقلیتوں کے حقوق دوم دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر قتل و غارت۔ مشکل یہ ہے کہ مغرب کے فریب میں مبتلا ان حضرات نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ اسلامی نظام حکومت میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مذہب کسی بھی شہری کی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ رہی مذہب کے نام پر دہشت گردی، انتہا پسندی یا فرقہ واریت تو اسلام ان کی نفی کرتا ہے اور قرآن مجید تفرقہ پھیلانے والوں کو سختی سے منع کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی منافرت بنیادی طور پر عالمی سیاست کا شاخسانہ ہیں اور ہم اپنے حکمرانوں کی کم بصیرتی اور عالمی قوتوں کی غلامی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہمارے ملک اور اس خطے میں دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت روس کی افغانستان میں آمد کے بعد شروع ہوئی جب گرم پانیوں تک روسی یلغار کے خطرے کو روکنے کے لئے شروع کیا گیا جس میں بعض برادر ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی شامل ہو گیا۔ چنانچہ ضیاء الحق کے دور میں جہادی کلچر کوکھلی چھٹی دے دی گئی اور دنیا بھر کے ممالک سے جہادی گروہوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ شیعہ سنی فسادات اوردہشت گردی کے پس پردہ عالمی قوتیں تھیں جنہوں نے اپنے مقاصد کے لئے دولت اور اسلحہ دے کر ہمارے بعض مذہبی گروہوں کو استعمال کیا۔ چاہئے یہ تھا کہ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد غیر ملکی جہادیوں کو واپس بھجوا دیا جاتا اور ملک میں فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جاتا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ امریکہ نے افغانستان پر حملوں کی بارش کردی۔ ان گروپوں اور نیٹ ورکوں کا امریکہ پر تو بس نہیں چلتا تھا، انہوں نے انتقام لینے کے لئے پاکستان کو نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا جال پھیلا دیا، ہندوستان نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اس کی سزا ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کا تعلق مذہب سے جوڑ کر مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دینا اور قومی و سیاسی زندگی سے الگ کر دینا جائز نہیں۔ کچھ معصوم دانشور قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سے یہ مطلب نکالتے ہیں حالانکہ اس تقریر کی روح فقط یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کوبرابر کے حقوق ملیں گے، مذہب کسی بھی شہری کی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ آخر یہ دانشور قائداعظم کی سینکڑوں تقاریر سے اس تقریر کو الگ کر کے کیوں پڑھتے ہیں؟ خود قائداعظم نے فروری 1948ء میں امریکی قوم کے لئے براڈ کاسٹ میں پاکستان کو پرائمر اسلامی ریاست قرار دے کر بحث کے دروازے بند کردیئے تھے۔ پاکستان و ہند کے مسلمانوں میں علامہ اقبال سے بڑا مفکر پیدا نہیںہوا۔انہیں مفسر قرآن کا مقام حاصل ہے۔ ذرا دیکھئے وہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کے حوالے سے اپنے مشہور عالم خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں کیا کہتے ہیں ’’مذہب اسلام کی رو سے خدا اور کائنات، کلیسا اور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کل کے اجزاء ہیں…. کیا واقعی ہی مذہب ایک نجی معاملہ ہے؟ آپ چاہتے ہیں ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا وہی حشر ہو جو مغرب میں مسحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی تخیل کے توبر قرار رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کی بجائے ان قومی نظامات کو اختیار کرلیں جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا…. اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے الگ نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کوئی مسلمان ایک لمحے کے لئے بھی ایسے نظام سیاست پر غور کرنے کے لئے آمادہ ہوگا جو اسلام کے اصولوں کی نفی کرے‘‘۔ (اقبال کا خطبہ الٰہ آباد)
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی