اسلام آباد(ویب ڈیسک) پیپلز پارٹی نے چیئرمین نیب کے اختیارات کو کم کرکے نیب عدالتوں کو بااختیار بنانے کے لیے سینٹ میں نیب آرڈنینس میں ترمیم کا بل پیش کر دیا، ترمیمی بل میں چیئرمین نیب کے گرفتاری کے اختیارات ختم کر کے عدالتوں کو ضمانت ،سمن اور وارنٹس کے اختیارات تجویز کئے گئے ، 50کروڑ روپے یا اس سے زائد رقم کے خرد بر د پر نیب کو کارروائی کا اختیار ہوگا، حکومت کی جانب سے مخالفت نہ کی گئی۔ بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نشستیں 37اور صوبائی اسمبلی میں 80کرنے کا آئینی ترمیمی بل اورصوبہ بہاولپور جنوبی پنجاب کے قیام کا آئینی ترمیمی بل پیش ہوگئے ۔ بل میں تجویز کیا ہے کہ ملتان ، بہاولپور ، ڈیرہ غازی خان ، میانوالی اور بھکر پر مشتمل صوبہ قائم کیا جائے ۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے قومی ادارہ برائے انسداد دہشتگردی بل 2019 میں ترمیم کا بل حکومت کی مخالفت کے باوجود پیش کر دیا گیا ۔ تجارتی تنظیمیں ترمیمی بل 2019 کی حکومت کی جانب سے بل کی مخالفت کی گئی ۔چیئرمین نیب اختیارات کم کرنے سمیت تمام پیش بل متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کردیئے گئے ۔چئیرمین سینیٹ نے کلبھوشن کو قونصلر رسائی دینے اور بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے بیان دینے پر وزیر خارجہ کو ایوان میں آکر آگاہ کر نے کی ہدایت کر دی ۔ رضا ربانی کے نکتہ اعتراض پر چیئرمین سینٹ نے کہا کل وزیر خارجہ نے بی بی سی کو انٹرویو دیا جس پر مجھے شدید حیرانی ہوئی ،جب کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں ۔ اپوزیشن نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی قیدیوں سے ارکان پارلیمنٹ اور خاندان کے افراد کو ملنے نہیں دیا جارہا ہے ،پمزہسپتال میں لانے کے وقت پر کرفیو کا سماں ہوتاہے ۔ چیئرمین سینیٹ نے رولنگ جاری کی کہ آصف علی زرداری کی صحت کے معاملے پر اس طرح سے تحریک التوا نہیں لائی جاسکتی ۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت کی طرف سے سیاسی محالفین کو نشانہ بنانے کا ازخود نوٹس لیں ۔عثمان خان کاکڑ نے کہاہلاکو خان کی حکومت ہے ،گرفتار مریض علاج سے محروم ہیں۔ اعظم سواتی نے کہاکشمیر کو سیاست سے الگ رکھا جائے ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کیخلاف مقدمات بنائے ، نیب کو لگام دینے کی ضرورت ہے مگر ہم مخصوص مقدمات سمیت کسی معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتے ۔فاروق ایچ نائیک نے ایوان بالا میں پیش کردہ نیب آرڈیننس ترمیمی بل میں تجویز کیا ہے کہ نیب میں صرف ایسے کرپشن کیس کی تحقیقات کی جائیں جس کی کم سے کم مالیت 50 کروڑ روپے ہو، ایسےاثاثوں پر ریفرنس ہوں جو بدعنوانی اور غیر قانونی طریقے سے حاصل کیے ہوں۔ترمیمی بل کے مطابق نیب کے قانون میں زیر حراست تحقیقات نہیں ہونی چاہئیں، گرفتاری کااختیار چیئرمین نیب کے پاس نہیں بلکہ عدالت کے پاس ہونا چاہیے۔بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ جس عدالت کو مقدمے کیلئے ریفرنس بھیجا جائے وہ طلبی یا وارنٹ جاری کرسکے گی، نیب عدالتوں کو ضمانت دینےکا اختیار حاصل ہوگا اور ملزم کو وعدہ معاف گواہ پر جرح کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ ل کے مطابق نیب افسران ریفرنس دائر ہونے سے قبل میڈیا پر کوئی بیان نہیں دیں گے، عوامی بیانات دینے پر ایک سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔اس موقع پر وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت ایک ہفتے میں احتساب کے قانون کا اپنا بل لا رہی ہے، اس معاملے کو کابینہ میں زیر غور لایا جا چکا ہے۔نیب ترمیم بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین پر غور و خوص کیا گیا تھا اور کابینہ نے قوانین پر نظرثانی کی ہدایت دی تھی۔