تحریر:اختر سردار چودھری ،کسووال
ماحولیاتی آلودگی کی کئی ایک اقسام ہیں ۔ مثلاً زمینی آلودگی’ آبی آلودگی’ ہوائی آلودگی ،شعاعی آلودگی اور شور کی آلودگی وغیرہ۔ آلودگی خواہ کسی بھی قسم کی ہو اس سے انسانی صحت اور قدرتی ماحول بہت بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شور کی آلودگی’ طبیعتوں میں چڑچڑاپن’ سردرد’تھکاوٹ’ ڈیپریشن اور بہرے پن کا موجب بن رہی ہے ۔ اسی طرح پانی کی آلودگی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں ،آلودگی سے موسموں میں تبدیلیاں آرہی ہیں،حیاتیاتی توازن کو خطرہ پیدا ہو چکا ہے ۔ کچھ سائنسدانوں کا تو یہ بھی نظریہ ہے کہ موجودہ دور میں اس دنیا کو سب سے بڑا خطرہ جنگلات کے ختم ہونے سے ہے کیونکہ ایسی صورت میں قدرتی آفات( سیلاب۔آندھی۔طوفان) کا آنا لازمی ہے اور پھر انسانوں میں مہلک بیماریوں کا اضافہ یقینی ہے ۔ دنیامیں ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافے کی ایک بڑی وجہ یہاں کے جنگلات کی مسلسل کٹائی بھی ہے ۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات کا صفایا کر دیا جاتا ہے ۔ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے جنگلات کی بقا اور اس کی حفاظت ناگزیر ہو چکی ہے ۔شجر کاری میں اضافہ کیا جانا چاہیے کیونکہ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے عالمی حدت میں روز بروز خطرناک اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔جنگلات کی کمی سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔آج جس طرح سے کائنات کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے فضائی ، زمینی،شعاعی ،آبی،شور کی آلودگی بڑھ رہی ہے، اس سے انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے اپنا ماحول خراب کر رہا ہے۔
جیسا کہ لکھا ہے جنگلات کی کٹائی سے، زمین کا درجہ حرات بڑھ رہا ہے جس سے گلیشیر پگھل رہے ہیں اور زمین کی زیرین منجمد سطح متاثر ہو رہی ہے ،یعنی گرین ہاؤس ایفکٹ سے قطبین پر جمی برف پگھلنے لگی ہے جس سے سطح سمندر بلند ہورہی ہے ۔ہم میں سے اکثراس بنیادی حقیقت سے آگاہ ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے ۔ صرف ایک حصہ خشکی ہے ۔ زمین پر پائے جانے والے پانی میں سے 97 فیصد پانی سمندروں میں پایا جاتا ہے جبکہ باقی تین فیصد میں سے 2 فیصد گلیشیئرز میں اور ایک فیصد دریاؤں’ جھیلوں اور ندیوں وغیرہ میں پایا جاتا ہے ۔اب اگر قطبین پر جمی برف پگھلنے لگی ہے تو اس سے تصور کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کتنی تباہی آئے گی۔
اس لیے ماحولیات کے ماہرین ماحول میں ہونے والی منفی تبدیلوں کے تحفظ کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت پرزور دیتے ہیں، جس قدر زیادہ ممکن ہو شجرکاری کی جائے ،فیکٹریوں اور گھروں کی گندگی پانی میں نا پھینکی جائے ، زہریلے دھوئیں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے ۔ماحول کے تحفظ کے لیے ماحولیات کا عالمی دن ہر سال 5جون کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 1974 سے منایا جا رہا ہے ۔ عالمی یوم ماحولیات منانے کی روایت کو 43 برس ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے 100سے زائد ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے بڑے جوش و جذ بے سے یہ دن منایا جا تا ہے ۔ اس دن کو منائے جانے کا مقصد عوام میں ماحول کے تحفظ کے لئے شعور بیدار کرنا ہے ، موسمی ا ثرات اور اس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے عوام میں شعور پیدا کرنا ہے ۔کیونکہ پوری دنیا کو اس وقت ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے ۔
اب ہم ماحولیات کے عالمی دن کے حوالے سے دین اسلام کی تعلیمات دیکھتے ہیں ماحول کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں، سب سے پہلی بات دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے فطری ماحول کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔دین اسلام کے بنیادی دو ماخذ ہیں قرآن اور حدیث نبوی ۖ قرآن میں احکامات والی آیات کی نسبت ان آیات کی تعداد زیادہ ہے جن میں فطرت اور فطری مظاہر کا تذکرہ کیا گیا ہے ایک مصری عالم نے ان کی تعداد 700 سے زائد بتائی ہے ۔اسی طرح بہت سی احادیث میں فطری ماحول کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا ہے ۔ ایک حدیث میں آپ سے روایت کیا گیا کہ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جو کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے ، اور اس سے انسان اور پرندے فائدہ اٹھائیں اور اس کا اسے ثواب نہ ملے ۔
اللہ کے رسول حضرت محمدکی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے ۔ حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی )دین اسلام نے پاکیزگی ،صفائی پر زور دیا ہے ،ایک حدیث ۖ کا مفہوم ہے کہاایمان صفائی و پاکیزگی کا سر چشمہ ہے یاصفائی ایمان کے ایک حصہ کو تشکیل دیتی ہے ـ اسی طرح شور کی آلودگی کے بارے میں اسلامی عبادات میں بھی اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ آواز بہت زیادہ بلند نہ ہونے پائے ، مثلاً نمازیں، دن کی نمازیں سّری ہوتی ہیں جب کہ بالعموم دیگر ذرائع سے شور پیدا ہوتا ہے ۔ فجر اور عشاء جب کہ شور کم ہوتا ہے اس وقت جہری نماز ہوتی ہے ۔ اس کی آواز بھی معتدل رکھی جاتی ہے ۔ اسی طرح سے دعا اور ذکر کا بھی معاملہ ہے ۔ماحول سے مراد انسان ، حیوانات، پرندے ، کیڑے ، مچھلیاں اور درختوں سمیت کائنات کا ہر جاندار وجود ہے بلکہ اس میںبے جان بھی شامل ہیں ۔
جانداروں کی زندگی کو جو خطرات ہیں جن سے ان مختلف انواع کی بقا کو خطرہ ہے ۔ماحول کا تحفظ کتنا ضروری ہے؟اور یہ کس کی ذمہ داری ہے ؟ان کا تحفظ انسان کی ذمہ داری ہے کیونکہ انسان کو اللہ تعالی نے خلیفہ بنایا ہے اور انسان ہی اشرف المخلوقات ہے اس کے علاوہ کائنات کے توازن میں بگاڑ کا سب سے زیادہ ذمہ دار بھی انسان ہے ۔اس لیے بھی کہ کائنات میں توازن کے بگاڑ سب سے زیادہ نقصان بھی اسی انسان کا ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں جانداروں کو انسان کا خاندان یا انسانوں کی طرح نوع کہا ہے۔ سورہ انعام (آیت 38 ) کا مفہوم ہے ۔” اور زمین میں چلنے والے جانور اور دو پروں پر اڑنے والے (پرندے ) تمہاری طرح جماعتیں (خاندان) ہیں”۔دوسری طرف قرآن کی ایک آیت میں بہت واضح طور پر کائنات میںحیاتیاتی تنوع کے بگاڑپیدا کرنے کی سزا بتائی گئی ہے ، ”زمین اور سمندر میں انسان کے ہاتھوں جو کچھ بھی غلط ہوتا ہے اس کا نقصان اس کو اٹھانا پڑتا ہے ”اور اگر کوئی اس دنیا میں حیاتیاتی بگاڑ کے تحفظ کے لیے کوشش کرتا ہے تو اس کواس عمل کااجر ملے گا ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اگر کسی نے ایک پودا لگایا اس پودے کو انسان اور جانور جب تک کھاتے رہیں گے یا اس سے انسانوں کو فائدہ (سایہ کی صورت میں) ملتا رہے گا تو اس کا اجر اس شخص کو ملتا رہے گا۔
تحریر:اختر سردارچودھری ،کسووال