تحریر: سہیل احمد مغل
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 1974ء سے ہر سال 5 جون کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں میں ماحول کے تحفظ کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے سمینارز، واک، ریلیاں اور دیگر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی تحریکوں نے اپنے زیادہ تر وسائل ایک عرصے تک مغربی ملکوں میں ماحول کے تحفظ کیلئے خرچ کیے ہیں لیکن اب ایشیائی اور عرب ممالک میں بھی اس حوالے سے توجہ دی جا رہی ہے۔
ماحول اور آب و ہوا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے اکثریتی مسلمان ممالک نے فیکٹریوں اور موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی میں کمی کیلئے ٹھوس اقدامات کیے ہیں دوسری جانب کئی ممالک نے قدرتی وسائل کے استحصال کی اجازت دیدی مثال کے طور پر انڈونیشیا کے جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی کے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
ماہرین اور سائنسدانوں نے دور حاضر میںجنگلات کی کٹائی کو دنیا کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا ہے ۔جہاں ایک جانب جنگلات کی کٹائی سے ماحولیاتی آلودگی میں دن بدن خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے وہیں معدنی ایندھن جلانے اور گیسوں کے اخراج باعث عالمی درجہ حرارت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی موسمی تبدیلیوں سے زراعت کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے ، ماحولیاتی آلودگی اور عالمی حدت میں خطرناک اضافے کے باعث لوگوں میں مہلک بیماریاں بھی پیدا ہورہی ہیں ۔طوفان، سیلاب اور زلزلے وغیرہ بھی بسا اوقات ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب ہوتے ہیں۔ایک عالمی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2025 ء تک ماحولیاتی آلودگی ایک خوفناک بحران کی شکل اختیار کرجائے گی اور ہوا میں کاربن آکسائیڈ کی مقدار میں چار فیصد اضافہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں حیاتیاتی اجناس کو پچیس فیصد خسارہ اٹھانا پڑے گا۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اگر پاکستان کی بات کی جائے توگزشتہ چند سالوں سے یہاں بھی ماحول کو آلودگی سے بچانے کیلئے متعلقہ وفاقی و صوبائی ادارے کسی حد تک سرگرم نظر آتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی آٹے میں نمک کے برابر ہے جس کی بنیادی وجہ محدود وسائل اور چند کالی بھیڑیں ہیں ۔اس صورتحال میں ان اداروں پر مزید توجہ دئیے بغیر سو فیصد نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے کیونکہ تحفظ ماحولیات کے اداروں کے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے جبکہ چند فیصد باقی رہ جانے والی رقم سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے کام کرنا ناممکن ہے دوسری جانب ان اداروں میں چند ایسے افراد بھی موجود ہیں جو رشوت لیکر ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی فیکٹریوں اور کارخانوں کیخلاف کاروائی کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس طرح وہ خود ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں ۔چنانچہ پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے ملکر کام کریں اور متعلقہ اداروں کو مناسب وسائل فراہم کریں اور ان اداروں میں موجود کرپٹ عناصر کا بھی احتساب کریں تاکہ مثبت نتائج حاصل ہو سکیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اسوقت ملک بھر میں 17 ہزار کے قریب تعدادچھوٹی بڑی انڈسٹری کی ہے جس میں 14 ہزار کے قریب انڈسٹری گندا پانی اور دھواں خارج کررہی ہے ۔ اس میں سب سے بڑی تعداد پنجاب میں66 سو کے قریب ہے جن میں 5 ہزار گندا پانی اور دھواں خارج کرتی ہے۔ اس انڈسڑی میں سب سے اہم مسئلہ چمڑے کے کارخانوں کا ہے۔اس مسئلے کے تدراک کیلئے صوبائی حکومت پورے صوبے میں مختلف مقامات پر 29 انڈسٹریل زون قائم کررہی ہے جن میں 18 انڈسٹریل زون مکمل ہوچکے ہیں ان میں سندر، قائد اعظم، ملتان، قصور اور فیصل آباد انڈسٹریل زون اور سیالکوٹ لیدر زون سرفہرست ہیںجہاں ماحول کو آلودگی سے بچانے کیلئے ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کیے گئے ہیں ۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب اب پنجاب کی تمام چھوٹی بڑی انڈسٹری کو ان انڈسٹریل زونز میں شفٹ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ لیکن ابھی انڈسٹری کی ایک بہت بڑی تعداد ان انڈسٹریل زونز میں شفٹ ہونے پر آمادہ نہ ہو سکی ہے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب نے سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کی لیدر انڈسٹری کو سیالکوٹ لیدر زون میں شفٹ کرنے کیلئے بھی کوششیں تیز کررکھی ہیں اور مقامی انڈسٹری رہنمائوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح پاکستان کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فیصل آباد میں 45 سو ایکڑ کے رقبے پر قائم کیے گئے انڈسٹریل اسٹیٹ میں شفٹ کرنیکی بھی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ لیکن دوسری جانب ملک میں ماحولیاتی آلودگی کا اہم سبب پرانے ٹائرز سے آئل نکالنے والے پلانٹس ہیں جو پنجاب سمیت ملک بھر میں رہائشی علاقوں میں بھی نصب ہیں لیکن حکومت یا کوئی بھی ادارہ ان کیخلاف کاروائی کرتا دکھائی نہیں دے رہا جبکہ اس سلسلہ میں محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم نے ان پلانٹس کیخلاف کاروائی کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد پلانٹس سیل کردئیے گئے تھے لیکن بعد میں وہ عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرکے پلانٹس چلا رہے ہیں۔ جبکہ ذرائع سے یہ رپورٹس بھی ملی ہیں کہ چند بااثر پلانٹس مالکان کو حکومتی شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے اور اگر محکمہ تحفظ ماحولیات ان کیخلاف کاروائی کرے تو سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی تمام فیکٹریوں، پلانٹس اور گاڑیوں کیخلاف بلا تفریق کاروائی یقینی بنائے تب ہی ملک میں ماحولیاتی آلودگی میں واضح کمی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح اگر ماحولیاتی آلودگی کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسلام نے بھی ہمیں ماحول کی حفاظت کرنیکی تلقین کی ہے، اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے اس مسئلے کی اہمیت اسوقت سمجھا دی تھی جب دنیا ماحولیاتی آلودگی کے نام سے بھی ناواقف تھی ۔ قرآن مجید نے انسانی نسل کی بقاء کیلئے بہت سے چیزوں کی نشاندہی کی اور نبی کریم حضرت محمدۖ نے اپنے ارشادات مبارکہ کے ذریعے سے انسان کو محفوظ زندگی گزارنے کے طریقے سکھائے۔
خالق کائنات نے قرآن کریم کے ذریعے انسان کو آگاہ کیا کہ وہ زمین کو برباد کرکے اس کے فوائد سے محروم نہ ہو، قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے ”زمین میں اسکی درستگی کے بعد فساد مت پھیلائو”۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے ”اور جب وہ پلٹتا ہے تو زمین میں فساد برپا کرتے ہوئے کھیتوں اور نسل کو تباہ کرنیکی کوشش کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو فساد پسند نہیں ہے”۔ اسلام نے ماحول کی اصلاح اور ترقی میں مفید ہر کام کی حوصلہ افزائی کی ہے، حدیث مبارکہ ہے کہ ” مسلمان جب بھی کوئی پودا لگاتا ہے یا اناج اگاتا ہے اور پھر اس میںسے کوئی انسان، جانور یا کوئی اورچیز کھاتی ہے تو اسے ضرور اجر ملتا ہے”۔ اسلامی تعلیمات میں درخت کاٹنے سے بھی روکا گیا ہے یہاں تک کہ جنگ کی حالت میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔
ماحول اور انسانی زندگی ایک دوسرے سے منسلک ہیں،معیار زندگی کی بہتری کے لئے قدرتی ماحول پر اثرانداز ہونے والے عوامل پر قابو پانا ہوگا۔ دنیا میںترقی کے تیز عمل نے قدرتی ماحول کو شدید متاثر کیا ہے،تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی ترقی کرہ ٔ ارض کے ماحول پربری طرح اثرانداز ہوئی ہے،قدرتی وسائل کے تحفظ اور عوام میں آگاہی کے ذریعے ماحول کو محفوظ کرنے میں مدد مل سکتی ہے،ماحول کے تحفظ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کا ایک اہم ذریعہ شجرکاری بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سکول، کالجز اور یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات میں باقاعد مہم چلائی جائے تاکہ آنے والی نسلوں میں نہ صرف ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کا شعور اجاگر ہو بلکہ وہ عملی طور پر بھی اس کا حصہ بنیں۔اور بطور شہری ہم سب کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں اور ماحول کے تحفظ میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
تحریر: سہیل احمد مغل