تحریر: ثمینہ راجہ
بہرحال لاھور ھو یا راولپنڈی، اس جعلی حکومت کی تشکیل کا پس منظر یە ھے کہ یکم اکتوبر 1947 کو بمبئی میں ریاست جونا گڑھ کے لوگوں نے ایک باغی حکومت قائم کر کے پاکستان کی قائم کردہ حکومت کو برطرف کر دیا تھا – اس واقعے کی تفصیلات یە ھیں کہ قانون آزادئ ھند کی دفعہ 7 کے تحت برطانوی ھند کی تمام آزاد ریاستوں کو یە حق دیا گیا تھا کہ انکے حکمران اگر چاھیں تو پاکستان یا بھارت میں شامل ھو جائیں اور اگر چاھیں تو آزاد ملک قائم کر لیں – تمام آزاد ریاستوں کو یە فیصلہ 15 اگست 1947 سے پہلے کرنا تھا بصورت دیگر وہ 15 اگست 1947 کو بھارت کے قیام کے ساتھ ھی آزاد اور خودمختار ملک کی حیثئت اختیار کر لیں گی – برطانوی ھند کی تین ریاستیں حیداآباد، جونا گڑھ اور جموں و کشمیر ایسی تھیں جہاں حکمران اور عوام کی اکثریت مختلف مذاھب سے تعلق رکھتے تھے – جموں و کشمیر کے عوام کی اکثریت مسلمان تھی جبکہ حکمران ھندو تھ۔
جونا گڑھ اور حیدرآباد کے حکمران مسلمان تھے مگر عوام کی اکثریت ھندو تھی – جونا گڑھ کے مسلمان حکمران محمد مہابت خان جی iii نے ریاستی عوام کی مرضی کے خلاف 15 ستمبر 1947 کو ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر دیا – پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح نے 16 ستمبر 1947 کو اس الحاق کی دستاویز پر دستخط کرتے ھوئے جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ قرار دے دیا – ریاست جونا گڑھ کی جغرافیائی سرحدیں پاکستان کے ساتھ نہیں ملتی تھیں اور ریاست کی اکثریتی آبادی ھندو تھی چنانچە ریاستی عوام نے اس فیصلے کو تسلیم نہ کیا اور جہاں ایک طرف بابریہ واد اور شیخ منگرال کے حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ ھونے والے اس الحاق کو مسترد کرتے ھوئے اپنے علاقوں کو بھارت میں شامل کر دیا وھیں راج کوٹ کے ایک ھندو رھنما سملداس گاندھی نے 25 ستمبر 1947 کو بمبئی میں جوناگڑھ کی عارضی حکومت کے قیام کا اعلان بھی کر دیا – جونا گڑھ میں رونما ھونے والے ان واقعات نے پاکستان کی پوزیشن کافی خراب کر دی چنانچە پاکستان نے بھارت کو بلیک میل کرنے کے لئیے جواباً جموں و کشمیر میں جونا گڑھ کے واقعات کو ری پلے کرنے کا فیصلہ کیا۔
یە بنیادی طور پر جونا گڑھ کے واقعات کا رد عمل تھا جس نے 4 اکتوبر 1947 کو (میرے علم کے مطابق اور واقعاتی شواھد کی روشنی میں) راولپنڈی میں ریاست جموں و کشمیر کی باغی حکومت قیام کا اعلان کیا – جس طرح پہلے عرض کیا جا چکا ھے اس حکومت کا زمین پر کہیں وجود نہ تھا لیکن پاکستان سمجھتا تھا کہ اس حکومت کے قیام کا اعلان ھوتے ھی ریاست جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی عوام پاکستان کےساتھ الحاق کا اعلان کر دیں گے اور یوں بھارت کو جونا گڑھ کے عوض جموں و کشمیر سے دستبردار کرنے کے لئیے مجبور کیا جائے گا – مگر ایسا کچھ نہ ھوا – اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام نے جونا گڑھ کے واقعات کے ردعمل میں راولپنڈی میں بننے والی اس “انقلابی،عوامی اور جمھوری” حکومت کو گھاس نہ ڈالی – یوں پاکستان کا سارے کا سارا پلان خاک میں مل گیا۔
جو لوگ راولپنڈی میں بننے والی 4 اکتوبر 1947 کی اس حکومت کو ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی امنگوں کی ترجمان، انقلابی،عوامی، جمھوری اور نہ جانے کیا کیا قرار دیتے نہیں تھکتے ان کے سامنے میں سردار ابراھیم کی خودنوشت سوانح عمری کشمیر ساگا کی صفحات 26 تا 29 رکھوں گی۔
سردار ابراھیم لکھتے ھیں کہ انہوں نے 19 جولائی 1947 کو اپنے گھر واقع آب گزر سرینگر میں مسلم کانفرنس کے دستیاب درمیانے درجے کے رھنماؤں کو جمع کر کے ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کروائی تھی – اس حقیقت سے اس بات کا اندازاہ ھوتا ھے کہ سردار ابراھیم ذاتی طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کے کتنے بڑے داعی تھے کہ انھوں نے مسلم کانفرنس کی قیادت کے دستیاب نہ ھونے اور سرینگر میں کوئی مناسب جگہ نہ ملنے کے باوجود اپنے گھر میں درمیانے درجے کے رھنماؤں کو جمع کر کے الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کرائی – یە 19 جولائی 1947 کا واقع ھے۔
پاکستان کے ساتھ الحاق کا اتنا بڑا پرچارک 10 ھفتوں کے بعد راولپنڈی میں ایک حکومت بنانے کا اعلان کرتا ھے اور اسے ھمارے دانشور آزاد اور خودمختار حکومت قرار دیتے ھیں – اس صورتحال کی دلچسپی میں مزید اضافہ اس وقت ھو جاتا ھے جب ھمارے قوم پرستوں کی من پسند انقلابی، عوامی، جمھوری، آزاد اور خودمختار حکومت کا وزیراعظم اپنی اس حکومت کی ناکامی کے بعد 20 دنوں کے بعد 24 اکتوبر 1947 کو ایک اور حکومت بنانے کا اعلان کرتا ھے جسے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کہا جاتا ھے – اس حکومت کے بارے میں سب اتفاق کرتے ھیں کہ یە پاکستان کی ایماء پر بنائی گئی تھی اور یە کسی بھی اعتبار سے آزاد اور خودمختار نہ تھی۔
کتنی عجیب بات ھے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا ایک جانا مانا کردار پہلے الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کرواتا ھے، پھر چند ھفتوں کے بعد ایک کاغذی اور جعلی حکومت بنانے کا اعلان کرتا ھے اور پھر مزید تین ھفتوں کے بعد ایک عملی حکومت بناتا ھے – یە تین واقعات محض 3 ماہ اور 5 دن کے اندر رونما ھوتے ھیں –
19 جولائی سے لیکر 24 اکتوبر تک – (جاری ھے)۔
تحریر: ثمینہ راجہ