2002 میں رجب طیب ایردوان نے اپنی سیاست کا رخ ہی نہیں، ریاست کا رخ بدلنے کا آغاز بھی کردیا تھا۔ وہ اکیسویں صدی کے جدید ترکی کے بانی ہیں۔ ان کی باکمال شخصیت کے اظہار کےلیے اتنا بتانا ہی کافی ہے کہ انہوں نے 1993 سے 14 جون 2018 تک، کسی بھی انتخاب میں شکست نہیں چکھی، ہمیشہ فتح نے ہی ہر موقعے پر ان کا استقبال کیا ہے۔ عدالتوں میں نااہلی کے کیسز، سیکولر اشرافیہ کے ہتھکنڈوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ 16 سال میں کئی بار کوشش کی کہ انہیں کسی نہ کسی طرح اقتدار سے علیحدہ کردیا جائے لیکن ان کی سیاسی بصیرت اور عقلمندی نے ہر بار ان کے مخالفین کو چاروں شانے چت گرایا؛ اور پہلے سے زیادہ طاقتور اور مقبول ٹھہرے۔
24 جون 2018 کے انتخابات، ترکی کی تاریخ کا ایک نیا موڑ تھا جس میں پارلیمانی نظام حکومت کو صدارتی نظام حکومت سے تبدیل ہونا تھا۔ رجب طیب ایردوان ترکی کے صدارتی نظام حکومت کے معمار ہیں۔ ان کی شکست درحقیقت صدارتی نظام حکومت کی معطلی کا پروانہ ہوتی، لیکن وہ ایک بار پھر فتح یاب ٹھہرے۔ 52.5 فیصد ووٹ حاصل کرکے پہلے ہی راؤنڈ میں اس نظام کے پہلے صدر بن گئے۔ انہوں نے اپنے مدمقابل مرکزی امیدوار محرم اینجے (30.5 فیصد) کے مقابلے میں ایک کروڑ ووٹ زیادہ ووٹ لیے۔ اس طرح وہ دنیا کے واحد رہنما ہیں جنہوں نے مخالف امیدوار سے 20 پوائنٹ زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ یہ صدارتی نظام کے ہونے والے ریفرنڈم سے 11 لاکھ زیادہ تھے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ انہوں نے گزرتے وقت کے ساتھ صدارتی نظام کے حامیوں میں اضافہ کیا ہے۔
اگرچہ ان کی پارٹی نے پارلیمنٹ میں 295 نشستیں جیتی ہیں جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 22 نشستیں کم تھیں لیکن ’’ملی حرکت پارٹی‘‘ کے ساتھ بنائے گئے انتخابی اتحاد کی وجہ سے 344 نشستوں کے ساتھ اب بھی پارلیمانی اکثریت میں ہیں۔
ایردوان کی جیت صرف ایک پارٹی اور شخصیت ہی کی سیاسی فتح نہیں، بلکہ یہ ترک معاشرے کی سماجی و سیاسی حقیقتوں سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ ایک بڑی حقیقت جس کا ادراک حالیہ انتخابی مہم میں سیکولر و کمالسٹ نے کیا اور جلد یورپ بھی جسے قبول کرلے گا، یہ ہے کہ ترکی مسلمان اکثریت رکھنے والا ایک ملک ہے جس کے اندر سے مذہب کو نکالنے کی سو سالہ جدوجہد ناکام ہوچکی ہے۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتیں عبداللہ گل جیسی مذہبی شخصیت پر اتفاق رائے میں ناکام ہوگئیں لیکن ترکی کی مرکزی اپوزیشن جماعت جمہوریت عوام پارٹی (CHP) نے محرم انجے جیسا شخص پیش کیا جو اس تناظر میں سافٹ چہرہ رکھتا ہے۔ انہوں نے پوری انتخابی مہم میں اپنا مذہبی تشخص بھرپور انداز میں پیش کیا۔ وہ اپنی جمعے کی نمازوں کی ادائیگی کی باتیں کرتے اور اپنے عمرہ ادا کرنے کے قصے سناتے۔ جلسوں میں انہیں مذہبی علامتیں پیش کی جاتی۔ عربی زبان ’’الف‘‘ کی مصوری تو اس وقت مذاق بن گئی جب انہوں نے اسے اُلٹا پکڑ کر قبول کیا۔
اس انتخاب میں یہ واضح ہوگیا کہ ترکی اب وہ نہیں رہا جہاں کسی زمانے میں مذہبی علامتوں کے اظہار پر سیاستدان مقابلے اور پارلیمنٹ سے نکال دیئے جاتے تھے؛ بلکہ اب سماجی و سیاسی دھارے میں قبولیت کےلیے ضروری ہوچکا ہے کہ مذہبی تشخص کا اظہار کیا جائے۔
ترک معاشرے کی دوسری بڑی سیاسی و سماجی حقیقت یہ ہے کہ انہیں اپنی تاریخ اور ماضی سے کاٹا نہیں جاسکتا۔ ترکی میں اسلام پسندی عثمانیت کے بغیر آگے نہیں آتی؛ اور اب عثمانیت کے ساتھ ہی ترک آگے بڑھنے کےلیے پرجوش ہیں۔ ایردوان کے دور میں نیو عثمانزم اور عثمانی ریاست کا احیاء ایک زندہ سیاسی موضوع رہا ہے۔ یہ ترک معیشت، سماج اور میڈیا انڈسٹری پر اثر انداز ہورہا ہے۔ استنبول کے عثمانی حمام، سلطان وان کی ویب سائٹ اور ترک تاریخ پر مبنی ڈرامے اس کا واضح اظہار ہیں۔ اس سارے منظرنامے میں ایردوان نے اپنی جمہوری حدوں کے اندر ایک عثمانی سلطان جیسا چہرہ دکھایا ہے۔ گزشتہ ریفرنڈم میں سلطان عبدالحمید خان کی پوتی نیلخان عثمانی اولو کہہ اٹھیں کہ ہم نے سلطان عبدالحمید خان کو اکیلے چھوڑ دیا تھا، اب ایردوان کو اکیلے نہیں چھوڑیں گے۔
ایردوان کے اس چہرے نے قوم پرست حلقوں کو ان کے قریب کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملی حرکت پارٹی (MHP) نے ان سے اتحاد کرلیا اور صدارتی انتخابات میں غیر مشروط حمایت کی۔ حالیہ انتخابی نتائج نے بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ نیو عثمانزم اور عثمانی ریاست کا احیاء ایک زندہ تحریک بن چکی ہے۔ جہاں صدر ایردوان نے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کیا، وہیں عثمانی قوم پرست جماعتوں ملی حرکت پارٹی (MHP) اور اس سے جنم لینے والی اچھی پارٹی (iyi Parti) نے تمام پارٹیوں سے اچھی انتخابی کارکردگی دکھائی۔
ترک سیاسی منظر نامے کی تیسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ 2002 سے اب تک ایردوان اور ان کی جماعت آق پارٹی نے شاندار کارکردگی دکھا کر ترکی کو دنیا کی بیس بڑی معاشی قوتوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے اور اگلے مرحلے میں دس بڑی معاشی قوتوں میں شامل کرنے کا ہدف دیا ہے۔ ان پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات اس معاشی کارکردگی کے سامنے ٹھہر نہیں سکے ہیں۔ انہوں نے ترکی کو ایک مضبوط جمہوری معاشرہ دیا ہے جو اپنی رائے سے بننے والے نظام کو الٹنے کےلیے ٹینکوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے آگے لیٹ گیا۔ حالیہ انتخابات میں دنیا کا سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ 87.5 فیصد دے کر بھی انہوں نے ایک جمہوری معاشرہ ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔
ایردوان کی چوتھی بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے مختلف سیاسی، نسلی اور مذہبی گروہوں جیسے کرد، علوی اور غیر مسلم اقلیتوں بشمول یہودیوں اور یونانی آرتھوڈاکس میں سماجی و سیاسی برابری قائم کی ہے جو ماضی کے ترکی میں ناپید تھی۔ کرد زبان پر عائد پابندی ختم کردی گئی بلکہ قومی ٹیلی ویژن TRT کے تحت کرد چینل لانچ کیا گیا۔ کرد زبان کے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، کردوں کو کیبنٹ کا حصہ بنایا گیا۔ یہ کمالسٹ پارٹی سے متضاد پالیسیاں تھیں۔ پھر انہوں نے کئی یونانی چرچوں کو ازسرِ تعمیر کرکے بحال کیا۔ ان اقدامات کی بنا پر آج کا ترکی، ماضی کے ترکی سے زیادہ ہم آہنگ معاشرے کا حامل دکھائی دیتا ہے۔
ترکی کی یہ سیاسی و سماجی حقیقتیں اور رجب طیب ایردوان کی جیت، ترک بلاک کا اندرونی معاملہ نہیں رہا بلکہ ان کا انتخاب مغرب، عرب ، افریقہ اور ایشیا میں برابر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے عالمی مسائل جیسے فلسطین، کشمیر، روہنگیا اور اقوام متحدہ میں ادا کیے جانے والے جاندار کردار کی بنا پر وہ عالم اسلام کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔
پھر نہ صرف یورپ بلکہ عرب بھی ترکی کی بڑھتی ہوئی معاشی اور سیاسی پیش رفت سے خوفزدہ ہیں۔ وہ اندرونی سیاسی و سماجی حقیقتوں کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ تاہم ترکی زیرو سم پالیسیکے تحت یورپ اور عرب کے ساتھ بغیر تصادم کے تعلقات کا خواہاں ہے۔
ترک صدارتی ترجمان ابراہیم قالن واضح طور پر کہتے ہیں کہ ناٹو اور یورپی یونین کے ساتھ روابط انہیں باقی دنیا سے توڑ نہیں سکتے۔ امریکی کے ساتھ تعلقات روس سے دشمنی رکھنے کی وجہ نہیں بن سکتے۔ سعودی عرب کے ساتھ رشتے، قطر اور ایران کے ساتھ قطع تعلق کی شرط پر قائم نہیں کیے جاسکتے۔ ترکی دنیا کے مظلوموں اور پسے ہوئے طبقات کی پرجوش حمایت کرتا ہے۔
ترک صدر ایردووان نے اقوام متحدہ میں ’’دنیا پانچ سے بڑی ہے‘‘ کا نعرہ لگایا جو اگرچہ بڑی طاقتوں کی اجارہ داری کو نقصان پہچاتا ہے تاہم وہ اسے عالمی امن و انصاف کےلیے ضروری سمجھتے ہیں۔ یورپ یا عرب سے پیدا ہونے والے تناؤ کی وجہ صرف ترکی کی اس پالیسی پر یورپی اور عرب سیاستدانوں کا ردعمل ہے۔
شامی مہاجرین اور کرد دہشت گرد عناصر سے جڑا شامی بحران ترکی کی خارجہ پالیسی اور کئی ممالک، جن میں روس اور امریکا بھی شامل ہیں، کے ساتھ تعلقات کی نوعیت طے کرتا ہے۔ ترک صدر ایردوان کی جیت اس منظرنامے پر گہرا اثر ڈالے گی۔
رجب طیب ایردوان نے جیتنے کے بعد جو پہلی تقریر کی اس میں شام کی پالیسیوں کے نہ صرف تسلسل بلکہ اگلے اہداف کا بھی پتا چلتا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ شام میں مزید علاقے فتح کریں گے تاکہ شامی مہاجرین کو ان کی سرزمین پر بسایا جائے۔ اس عمل سے ترکی دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے: ایک تو شامی مہاجرین کا اپنی سرزمین پر جانا ترک معیشت پر بوجھ میں کمی لائے گا؛ دوسرا شام اور عراق میں موجود کرد دہشت گردوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ بشارالاسد کے ساتھ غیر مفاہمتی رویہ روس اور ایران کے ذریعے ختم ہوجائے گا یا پھر ایک مستقل خطرے کی صورت میں موجود رہے گا۔