کچھ عرصہ قبل پڑوسی ملک کی ایک فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس فلم نے جہاں کامیابی اور بزنس حاصل کیا وہیں اس فلم کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہو گیا اور زبان زد عام ہو گیا۔ اس فلم کے ایک سین میں ہیروئن ہیرو کو مخاطب کر کے کہتی ہے کہ ” تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب پیار سے لگتا ہے”۔
ہمارے اس خطے خاص طور پر پاکستان میں ہمسایہ ملک کی فلموں کی چھاپ بہت زیادہ ہے۔اور ہمارے معاشرے اور اردگرد کے لوگوں میں اس کا اثر بہت نظر آتا ہے گویا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ہر روز اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اپنے آس پاس کی دنیا سے بے خبر اور حقیقت سے بے نیازکسی فلمی یا خیالی دنیا میں رہے ہیں جہاں بظاہر سب بہت خوبصورت اور دلکش نظر آتا ہے۔ جہاں اس فلم کے ڈائیلاگ کے پس منظر میں ہمیں شاید ظاہری اور جسمانی تکلیف بہت کم نظر آتی ہے اور اس کے مقابلے میں وہ تکلیف جو روح کو دی جائے شاید وہ تکلیف اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ہم بظاہر جس صدی میں سانس لے رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سانس بہت بھاری ہے۔یہ صدی یہ زمانہ جس میں ہم تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں وہیں ایک معمولی سی بات پر قتل کر دینا بلکل درست ہے، کیونکہ غیرت کے نام پر قتل اور نام نہاد علاقائی روایات کے نام پر قتل کرنا ایک عام با تصور کیا جاتا ہے۔
آج شام مجھے ایک خبر پڑھنے کا اتفاق ہوا اور خبر پڑھنے کے بعد میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہمارا ملک جو کہ اسلام کے نام پر بنا جس کے قانون اور آئین میں پاکستان کے بنیادی حقوق درج ہیں تو وہ لوگ جو نام نہاد علاقائی روایات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور ان کا مقدر صرف اور صرف موت ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار نہیں سکتے اور اگر کبھی وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے توان کی اس کوشش کو ان کی موت کے ساتھ دفن کر دیا جاتا ہے۔
اس خبر کو پڑھنے کے بعد میں اپنے آپ سے یہ پوچھنے پر مجبور ہوگیا کہ کہاں ہے پاکستان کے وہ ریاستی ادارے، وہ پاکستان کا آئین اور قانون جس میں پاکستانی کی جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ریاست ہے اور یہ کون ہے جس نے ریاست کے اندر ریاستی قانون بنایا ہوا ہے۔ ہم ان علاقوں کو آج بھی ‘علاقہ غیر’ کہہ کر اپنے آپ سے الگ کردیتے ہیں، وہاں کے رہنے والے لوگوں کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں. شاید وہ اس پاکستان کا حصہ نہیں اور ان پر نہ پاکستان کا قانون لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی پاکستان کی کوئی رٹ بحال ہوتی ہے اور آج ستر سال گذرنے کے بعد بھی انگریز کے بنائے ہوئے کالے قانون ایف سی آر کا خاتمہ نہیں کر سکے۔
آخر اس جدت پسند زمانے میں موبائل فون کون سا ایسا بڑا جرم بن گیا کہ اپنے آپ کو مرد ثابت کرنے کے لیے ایک نازک احساس کو موت کے گھاٹ اتار کر منوں مٹی تلے دبا دو۔ میں پوچھتا ہوں حکومت پاکستان سے، عدلیہ سے، چیف جسٹس سے کیا آپ کو ہر چیز کی خبر میڈیا سے ہی ملتی ہے؟ کیا میڈیا آپ کو اور آپ کے سوئے ہوئے ضمیر کو ہر بار جگائے تب کہیں جا کر آپ کو احساس ہوگا کہ از خود نوٹس لینا ہے اورآر پی او، ڈی پی او کو معطل کرنا ہے۔ کہاں ہےاس صوبے کی منتخب حکومت جس نے تبدیلی کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنایا۔ یہ تبدیلی کا نعرہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو ٹیکنالوجی کے ساتھ تبدیل کرنا چاہیے تو آپ اس کو غیرت کے نام پر یا علاقائی روایات کی آڑ میں موت کے گھاٹ اتار دیں۔ ہر ذی شعور شخص کو یہ خبر پڑھنی چاہئیے اور اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہئیے کہ اب ہمیں تھپڑ سے ڈرنا چاہئیے یا موبائل فون سے؟