تحریر: شاز ملک
انسان کا شعور جب آگہی کی کمند ڈال کر عرفان کی فصیل پر پہنچتا ہے تو ذات اور وجود میں ہم آہنگی ہونے لگتی ہے تب وجود میں الجھی گرہیں ذات میں چبھنے لگتی ہیں بلکل ایسے جیسے اکثر گلابوں کو چھوتے ہوئے
کانٹے چبھ جاتے ہیں۔
بے اختیاری میں ہم ہاتھ پر زخم کا احساس کرتے ہیں جہاں نوکیلے کانٹے کی چبھن درد کا احساس بہتے خون کی صورت میں نظر آتی ہے۔
ایسے ہی ذات کا عرفان وجود میں بندھی گرہوں کو سامنے لے آتا ہے- جنہیں ہم نے باندھ باندھ کر دل کی گہری کال کوٹھری میں پھینک دیا ہوتا ہے- مگر ہم یہ نہیں جانتے کے یہی گرہیں خود ہماری ذات کو الجھا بھی دیتی ہیں اور گمراہ بھی کر دیتی ہیں۔
ہمارے دل اور روح میں بہتے شفاف نیکی کی چاندنی کے ہالے پر گمراہی کے بند بندھ جاتے ہیں تو ٹھرے ہے پانی میں یہ الجھی گرہیں کایی بن کر جمبے لگتی ہیں۔
پھر دل سے روح پر درآنے والی روشنیاں اندھیروں میں ڈوبنے لگتی ہیں اور پھر شعور کے سب دروازے بند ہونے لگتے ہیں دلوں پر پڑے درد کے زنگ آلود قفل زندگی کو غمزدہ کر دیتے ہیں -انسان اپنی ذات کا عرفان پانے کی کوشش کرے تو رہنمائی قرآن اور سنّت سے حاصل ہوتی ہے۔
زندگی کا مقصد الله کی محبت کے احساس کو وجود ذات اور روح میں جان گزین پاتا ہے تو پھر خود ہی توبہ کے چراغ جن کی لو آنسووں سے جگمگاتی ہے لے کر دل کی اسی بند کال کوٹھری سے ان گرہوں کے بنڈل کو نکال کر ہدایت کے ہاتھوں سے آھستہ آھستہ ایک ایک کر کر ان گرہوں کو کھولنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
پھر فلاح کے اس راستے پر گامزن ہو جاتا ہے جہاں وجود ذات اور دل کا وجدان اسکے لئے خوشیوں بھری عاقبت کا بہتا ہوا وہ شفاف چشمہ بن جاتا ہے جس سے اسکی روح پاکیزگی اور اپنی نورانیت کے کھویۓ احساس کو دوبارہ محسوس کر کے لافانیت میں ڈوب جاتی ہے۔
تو آیئے آپ بھی قرآن اور سنت کی رہنمائی میں اپنے ذات کی الجھی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کریں اس وقت کے آنے سے پہلے جب گرہوں کے اوپر اور گرہیں لگ جاتی ہیں اور انسان ابھی بندھی گرہوں کے ساتھ قبر کے گڑھے میں اتر جاتا ہے۔
تحریر: شاز ملک