تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں نے اپنے سامنے بیٹھی عورت کے سامنے جب یہ اقرار کیا کہ میں پیر صاحب کی لونڈی بننے کو تیار ہوں اور پیر صاحب کو میرے تن من جسم و روح پر پورااختیار حاصل ہو گا تو اُس عورت کا چہرہ کا میابی اور خو شی سے کھل اُٹھا اُس نے فاتحانہ نظروں سے پیر صاحب کی طرف دیکھا اور کامیابی اور رضا مندی کا اشارہ کیا تو پیر صاحب نے بھی غیر معمولی خو شی کا اظہا رکیا اور ستائشی نظروں سے ہم دونوں کی طرف دیکھا میں نے اقرار تو کر دیا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں میری روح دل و دماغ اور باطن کے بعید ترین گوشوں میں کہیں انکار ندامت شرمندگی ، پچھتاوا ، غلطی اور گنا ہ کا احساس مچل رہا تھا لیکن میں نے اُسے سختی سے کچل دیا ۔ اب فیصلہ یہ ہوا کہ میں تین دن کے لیے گھر سے اجازت لے کر آستانے پر رہوں گی ۔ میں نے گھر والوں سے بات کی گھر والے میری پیر صاحب سے عقیدت اور جنون سے بخوبی واقف تھے انہوں نے اِس لیے مجھے تین دن آستانے پر رہنے کی اجا زت دے دی میں نے گھر میں یہ بتا یا کہ میں نے ایسا خاص وظیفہ کر نا ہے جو پیر صاحب کی زیر نگرانی ہی ممکن ہے اِس لیے مجھے تین دن آستانے پر رہنا ہو گا ۔ میرے گھر والے میری ضد اور جنون کی وجہ سے مان گئے اور پھر مقررہ دن آستانے پر پہنچ گئی ۔
اُسی عورت نے مجھے ہا تھوں ہا تھ لیا ( محترم قارئین اِس سے آگے میرا قلم لکھنے سے قاصر ہے کس طرح اُس بے چاری کو تین دن ایک الگ مکان میں رکھا گیا دلہن بنایا گیا اور اُس معصوم نیک با قرہ لڑکی کی عزت تار تار کر دی گئی ) اور پھر میں نے پیر صاحب کی خوشنودی کے لیے اپنی عزت اُن کے قدموں پر نچھاور کر دی ۔ پھر یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلتا رہا میرا ضمیر اکثر میرے من میں انگڑائیاں لیتا گنا ہ کا احساس دلا تا لیکن مرشد کی رضا مجھ پر جنون کی طرح سوار تھی ۔جب سے میں پیر صاحب کے حرم میںداخل ہو ئی تھی تو مُجھ پر بہت سارے انکشافات ہو ئے کہ چند عورتوں کا ایک گروپ تھا جو پیر صاحب کی خاص عورتیں تھیں یہ اپنے دنیاوی کاموں کے لیے اور پیر صاحب کا قرب اوراپنی اہمیت کے لیے اپنا جسم پیر صاحب کے قدموں پر نچھاور کر رہی تھیں ۔اصل میںآستانے پر بہت رش ہو تا تھا عورتوں کو اپنی باری کے لیے گھنٹوں انتظار کر نا پڑتا تھالیکن جو عورتیں پیر صاحب کے حرم میں داخل ہو جا تیں تھیں وہ حلقہ خا ص میں شامل ہو جاتی تھیں وہ جب چاہتیں پیر صاحب سے آسانی سے مل لیتی اب جن عورتوں کو گھنٹوں Waitکرنا پڑتا وہ بھی اِسLuxuryکے لیے خواہش مند ہوتیںتو حلقہ خا ص کی عورتیں انہیں ترغیب دیتیں اِس طرح پیر صاحب کے حرم میں آئے دن کسی نئی عورت کا اضافہ ہو تا رہتا ۔
کیونکہ میں عشق حقیقی کی طالبہ تھی اِس لیے میں عشق مجا زی کو پی کر اب اِس انتظار میں تھی کہ اب تو میں مرشد کریم پر قربان ہو چکی ہوں اب تو میرااگلا امتحان اور سفر بہت آسان ہو جائے گا ۔ پیر صاحب مجھ سے تھے بھی بہت خو ش کہ تم بالکل ٹھیک راستے پر جا رہی ہو ایک دن تمہا را دامن خوشیوں سے بھر جا ئے گا تم جو خا لی دامن لے کر آئی تھی اُس کو ہم لازوال خوشیوں سے بھر دیں گے با ادب با مراد بے ادب بے مراد میں من ہی من میں بہت مسرور اور نازاں کہ میرا مرشد مجھ سے راضی ہے میں معصوم حقیقیت سے بے خبر کہ میں تو گناہوں کی وادی میں غرق ہو چکی ہوں میں اپنی منزل کے بجائے گناہوں کے صحرامیں بھٹک رہی ہوں میں تو عشقِ حقیقی کی شاہراہ کے بجائے گناہوں کی بستی میں محوِ سفر ہوں ۔ میں مہینوں گناہوں کی اِس وادی میں لٹتی رہی اور یہ سمجھتی رہی کہ عشقِ مجاز ی یہی ہے جس کے بعد میں اپنی اگلی منزل کی طرف جا سکوں گی ۔ مجھے یہ پتہ ہی نہ تھا کہ میں تو پیر صاحب کی ہوس کا شکا رہو چکی ہوں جو خود اپنے نفس اور ہوس کا غلام ہو وہ عشقِ حقیقی کا طالب کس طرح ہو سکتا ہے وہ تو جنسی درندہ تھا جو بے دردی سے اپنی خواہشات کو پورا کر رہا تھا پریشانیوں مصیبتوں میں عورتیں اُس کے پاس آتیں وہ اُن کو سہا نے خواب دکھا کر اُن کے جسموں سے کھیلتا تھا ۔
اِس دوران مجھے یہ خوش فہمی ہو گئی کہ پیر صاحب مُجھ سے سچا عشق کر تے ہیں جو بعد میں پتہ چلا کہ وہ سب عورتوں کو یہی یقین دلا تے تھے میں صرف تم سے ہی سچا عشق کر تا ہوں میں دل و جان سے پیر صاحب کے عشق میںغرق ہو چکی تھی پیر صاحب کو دیکھے بنا چین نہ آتا میں دن رات پیر صاحب کی سوچوں اور باتوں میں مست رہتی ایک پل بھی اُن کے بغیر چین نہ آتا دیوانوں کی طرح بار بار اُن کے آستانے کی طرف جا تی آستانے پر جا کر سکون ملتا بنا پلک جھپکے پیر صاحب کو دیکھتی رہتی پیر صاحب میری اِس دیوانگی اور جنون کو دیکھ کر خوب Enjoyکر تے میں اِس مقام پر آگئی تھی کہ پیر صاحب کے آنکھ کے اشارے سے میں ایک پل میں خود کو فنا کر دیتی ۔
یںیہ سوچتی کہ اب میرا رواں رواں پیر صاحب کے عشق میں فنا ہو چکا ہے اب شاید میرا مجازی عشق اپنی تکمیل تک پہنچ گیا تھا اب میں شاید مرشد کے عشق میں فنا ہو چکی تھی ۔ میرے گھر والے میرے جنوں اور دیوانگی سے حیران ہو تے لیکن میں تو دنیا ما فیا سے بے خبر عشقِ مجازی کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی ۔ میں خوشی سر شاری میں ساتویں آسمان پر پرواز کر رہی تھی میری ذہنی کشمکش ختم ہو چکی تھی ۔ میں ہو س کی اِس وادی کو ہی اپنی منزل سمجھ بیٹھی تھی اور پھر میری زندگی کا سب سے تلخ اور بھیانک موڑآیا جس نے مجھے اندر تک ہلا کر رکھ دیا جس نے مجھے زندگی کی بہت بڑی حقیقیت سے روشناس کر ایا ۔ پیر صاحب نے جو کہا تھا کہ وہ میرے خالی دامن کو خو شیوں سے بھر دیں گے اُنہوں نے واقعی میرے دامن کو بھر دیا لیکن خو شی مسرت کامیابی سے نہیں بلکہ غلاظت ، گندگی ، گنا ہ اور بد نامی سے مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب میں جنسی کھیل میں حاملہ ہو گئی یہ خبر میرے لیے اور میری بو ڑھی ما ں کے لیے قیامت سے کم نہ تھی ہما رے حواس عقل و شعور معطل ہو کر رہ گئے ہمیں بالکل بھی سمجھ نہ آئی کہ اب ہم کیا کریں ۔ میر ی ماں کا ذہنی توازن خراب ہو نے کے قریب پہنچ گیا ۔
پھر جیسے ہی میری ماں نا رمل ہو ئی تو میری ماں مجھے لے کر پیر صاحب کے آستانے پر پہنچ گئیں ۔ ہم دونوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی بر سات جا ری تھی میری ماں نے پیر صاحب سے الگ ملنے کی درخواست کی جب سب چلے گئے تو ہم پیر صاحب کے سامنے پیش ہو ئے تو میری ماں نے اپنا دوپٹہ پیر صاحب کے قدموں میں گرا دیا اور ہا تھ جو ڑ کر التجا کی پیر صاحب آپ نے جو بھی کیا پلیز ہم پر ترس کھا ئیں اور میری بیٹی کو اپنا لیں تا کہ ہم بد نا می سے بچ جا ئیں جب میری ماں نے گر یہ زاری کر تے ہو ئے ساری بات بتا ئی تو پیر صاحب نے سرے سے انکار ہی کر دیا کہ یہ پتہ نہیں کس کے گنا ہ کا بوجھ اٹھا ئے پھرتی ہے میں اِس کا ذمہ دار بلکل بھی نہیں ہوں یہ بچہ میرا نہیں ہے پتہ نہیں اِس کے کس یار کا ہے میں پیر صاحب کے اِس روئیے کو دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پیر صاحب یہ کیا بکواس کر رہے ہیں لیکن پیر صاحب نے ہماری ایک نہ سنی اور تقریبا دھکے دیتے ہو ئے نکا ل دیا اور کہا کسی اور کا گنا ہ میرے ذمے لگا تی ہو آج کے بعد کبھی میرے پاس آنے کی غلطی نہ کر نا اور اگر کبھی آئو گی تو میں سب کو بتا دوں گا کہ کسی کا گناہ میرے ذمے لگاتی ہے اور پھر میں اور میری ماں وہاں سے آگئے پھر میری ماں اور میرے ماموں نے مجھے مختلف ڈاکٹروں اور دائیوں کے پاس لے جانا شروع کر دیا ۔
یہ درد کی ایک اور لمبی داستان ہے جس میں میرا جسم ریزہ ریزہ اور زخموں سے چور چور ہو گیا میں مر تے مرتے بچی اور پھراِس گنا ہ سے مجھے چھٹکارا مل گیا میں اور میری ماں درد اور ذلت کے جس با ب سے گزرے یہ ہم ہی جانتے ہیں میں اِس گناہ سے تو چھٹکارا پا گئی لیکن جب میں ٹھیک ہو گئی تو میرا دل ہر وقت پھر پیر صاحب ملنے اور آستانے پر جانے کی ضد کرتا اور آخر مجبورہوکر میں پیر صاحب کے پاس گئی تو اُنہوں نے سختی سے منع کر دیا ۔ اب میں جب بھی اُن کو فون کر تی ہوں تو وہ میرانمبر بلاک کر دیتے ہیں مجھے ملتے نہیں ۔ میں پا گلوں کی طرح دیوانہ وار ان کی طرف جا تی ہوں پتہ نہیں کیوں اب میں پیر صاحب کا منانے کے لیے کئی بابوں کے پاس جا چکی ہوں کہ میں پیر صاحب کے عشق میں فنا ہو چکی ہوں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی لیکن پیر صاحب تو میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے ۔
اِسی سلسلے میں پرو فیسر صاحب اب میں آپ کے در پر آئی ہوں کہ میں پیر صاحب کے بغیر نہیں رہ سکتی وہ مُجھ سے رابطہ کیوں نہیں کر تے وہ مجھے اپنے پا س کیوں نہیں آنے دیتے میں نے ان کا کیا بگا ڑا تھا میں تو اللہ کی تلاش میں اُن کے پاس گئی تھی میں تو معصوم تھی میں تو راہِ حق کی طالبہ تھی میرا کیا قصور تھا اور پھر وہ معصوم بلک بلک کر رونے لگی اُس کی داستان سن کر میری آنکھوں سے بھی غم کے فرات بہہ نکلے میں بے بسی اور دکھ کے ہما لیہ پر یہ سوچ رہا تھا کہ وطن عزیز کی کتنی معصوم عورتیں خدا کی تلاش میں اِن وحشی درندوں کے ہاتھوں گنا ہ اور ذلت کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں اور پتہ نہیں یہ سلسلہ کب جا کر رکے گا۔
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956