تحریر : ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں مہاجرین کی سے بڑی تعداد داخل ہورہی ہے۔ ان میں سب سے بڑی تعداد شام کے باشندوں کی ہے۔ شام کے علاوہ خطے کے دیگرممالک کے باشندے اور افغانی بھی ان مہاجرین میں شامل ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان، بھارت اور دوسرے ممالک کے کچھ لوگ بھی یورپ میں بہتر معیار زندگی کی امید کے ساتھ کھٹن مراحل سے گذرتے ہوئے یورپ میں داخل ہورہے ہیں۔ سویڈن آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ مہاجرین قبول کرنے والا ملک ہے۔
صرف ایک ہفتہ میں دس ہزار سے زائد افراد نے سیاسی پناہ کی درخواست ہے جن میں سب سے زیادہ افغانستان اوراس کے بعد شام کے باشندے شامل ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباََ دولاکھ مہاجرین کی سویڈن میں آمد متوقع ہے جس سے ملک میں رہائش اور دوسرے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اگرچہ سویڈن مہاجرین کو خوش آمدید کہہ رہا ہے لیکن ساتھ ہی حکومت نے متنبہ کیا تمام مہاجرین کو رہائش دینا ممکن نہیں اس لیے یورپ کے دوسرے ممالک بھی اس کار خیر میں حصہ لیں۔ سویڈن کے بعد جرمنی نے بڑی تعدا د میں مہاجرین قبول کیے ہیں۔ جرمنی کے ساحلی شہر رسٹوک سے بحری جہاز سے روزانہ ایک ہزار کے قریب مہاجرین سویڈن میں داخل ہورہے تھے لیکن اب سویڈش حکومت کی جانب سے ایسے اعلان کرنے کی وجہ سے یہ تعداد کم ہو کر چار سو روزانہ رہ گئی ہے۔
سویڈن کی نسل پرست جماعت سویڈش ڈیموکریٹ مہاجرین کی آمد کے خلاف ہے اور اُس نے مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے سویڈن میں اشتہار بازی شروع کررکھی ہے تاکہ رائے عامہ مہاجرین کی آمد کے خلاف ہوجائے۔ نسل پرست جماعت نے یونان کے جزیرہ Lesbosاور دیگر مقامات جہاں سے مہاجرین کی سویڈن کی جانب پیش قدمی ہورہی تھی وہاں بھی اشتہاری مہم چلائی کہ سویڈن میں مہاجرین کو رہنے کے یے کوئی رہائش نہیں ملے گی، وہاں حجاب پر پابندی ہوگی ، کام نہیں ملے گا اور نہ ہی کوئی مالی امداد ملے گی۔ سویڈش حکومت اور سیاسی جماعتوں نے اسے گمراہ کن قرار دیا اور کہا کہ یہ سویڈن کا تشخص خراب کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
سویڈن کی حکومت ، سیاسی جماعتیں اور حقوق انسانی کی تنظیمیں مہاجرین کو سہولتیں فراہم کرنے میں اپنا کرادر ادا کررہی ہیں۔ گرین پارٹی نے تجویز دی ہے کہ زیادہ تعداد میں غیر ہنر مند ملازمت کے مواقع پیدا کئے جائیں تاکہ مہاجرین اُس نے فائدہ اٹھا سکیں۔یورپ میں آنے والے مہاجرین کی جانب سے سویڈن کا انتخاب اس لیے کیا جارہاہے کہ یہ ملک بہترین سماجی بہبود اور سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ سویڈن کسی بھی یورپی ملک کے مقابلے میں آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ مہاجرین کو آباد کرتا ہے اور یہاں مستقل ویزہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ شامی مہاجرین کو سویڈن آمددپر مستقل ویزہ ملنے کی وجہ سے وہ لوگ سویڈن پہنچنا چاہتے ہیں۔
بہت سے مہاجرین کے رشتہ دار پہلے سے ہی سویڈن میں رہ رہے ہیں اس لیے وہ بھی ادھر کا رخ کررہے ہیں۔ مہاجرین کا سویڈن کی طرف رخ کرنے کی ایک وجہ سویڈن کی بین الاقوامی ساکھ، حقوق انسانی کے لیے کام اور بلند معیار زندگی ہے۔ مہاجرین کی موجود لہر سے قبل سویڈن میں رومانیہ کے باشدوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو یورپی یونین کے شہری ہونے کی وجہ سے آسانی سے سویڈن آجاتے ہیں اور یہاں آکر بھیک مانگنے کا کام کررہے ہیں۔ اس وقت ہر بڑی دوکان، اسٹیشن اور عوامی مقامات پر رومانیہ باشندے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
ان حالات میں اب سویڈن میں مہاجرین کے لیے عوامی حمایت میں کمی ہورہی ہے یہاں تک کہ ملکی سطح پر حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹ مہاجرین کو خوش آمدید کہہ رہی ہے لیکن لوکل کونسلوں میں اسی جماعت کے رہنماء مہاجرین کو قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ اس صورت حال میں سویڈن کی حکومت نے مہاجرین کی آمد کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی سرحدوں پر ملک میں داخل ہونے والوں کی پڑتال شروع کردی ہے۔ سب سے زیادہ نگرانی ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان ہوگی۔ سویڈش باشندوں سے کہا گیا ہے سفر کرتے وقت اہنے پاسپورٹ ساتھ رکھیں۔
یورپ میں اس وقت مہاجرین کے مسئلہ پر بہت شور ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مہاجرین کا مسئلہ کیوں پیدا ہوا۔ مشرق وسطیٰ کے جن ممالک کے لوگ اب در بدر پھر رہے ہیں چند ہی سال پہلے وہ اپنے اپنے ممالک میں باعزت زندگی بسر کررہے تھے۔ عراق، لیبیا، شام، افغانستان اور خطے کے دیگر مماک کو آگ اور خون میں جھونکنے والے کون ہیں۔ حقوق انسانی کے علمبراروں نے وہاں بسنے والے انسانوں کے لیے زندگی بوجھ بنا دی ہے۔ ان ممالک میں انہیں جمہوریت اور انسانی حقوق کی تڑپ تھی لیکن فلسطین اور کشمیر کے بارے میں کیوں ان کی آنکھیں اندھی، کان بہرے اور دل بے حس ہیں۔
جمہوریت کو اپنا نصب العین قرار دینے والوں کے کیوں دہرے معیار ہیں اور جب اسلامی دنیا میں اُن کی نا پسند جماعتیں عوامی حمایت حاصل کرتی ہیں انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مسلم دنیا کے حکرانوں کی حیثیت اورنگ زیب کے بعد آنے والے مغل حکمرانوں کی سی رہ گئی ہے۔
یہ محمد شاہ رنگیلے،شاہ عالم و اکبر ثانی جیسے بے اختیار حکمران ہیں جو خود تو اپنی زندگی عیش و عشرت میں گذار رہے ہیں لیکن عوام کے لیے جیناایک جرم بن گیا ہے۔ دنیا میں حقوق انسانی کے معیار دہرے ہیں۔ علامہ اقبال نے لیگ آف نیشن کو کفن چورو ں کا گروہ درست ہی قرار دیا تھا ۔ اقوام مغرب جمہوریت کی آڑ میں جس طرح دوسری اقوام کو اپنا غلام بنا رہی ہیں وہ بالکل عیاں ہے۔مفاد پرستی اور منافقت کی اس روش کے بارے میں حکیم الامت ایک مدت پہلے ہی یہ کہہ گئے تھے کہ
ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر
متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی
تو ہیں ہراول لشکر کلیسا کے سفیر
تحریر : ڈاکٹر عارف محمود کسانہ