تہران: یورپی یونین کے ادارہ برائے توانائی اور ماحولیات کے سربراہ نے ایران کو یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے باوجود یورپی ممالک اس معاہدے کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
یورپین کمشنر برائے توانائی اور ماحولیات میگل اریاس کینیٹ نے تہران کا دورہ کیا اور ایرانی حکام کو اس فیصلے سے آگاہ کیا جبکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 28 ممالک پر مشتمل یورپی یونین ایرانی تیل کی درآمد کنندہ ہے اور اسے امید ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت میں مزید اضافہ ہوگا۔ تہران میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے میگل اریاس کینیٹ نے کہا کہ انہوں نے اپنے ایرانی دوستوں کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اگر وہ اس معاہدے کو پورا کریں گے تو یورپی ممالک بھی اپنے وعدے پورے کریں گے۔
ایرانی نیوکلیئر چیف علی اکبر صلاحی کا کہنا تھا کہ ہم اپنے تجارتی لین دین کو بڑھانے کی کوشش کریں گے جو ایرانی معیشت کے لیے اہم ثابت ہوتا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تہران، یورپی ممالک کی جانب سے 2015 میں ہونے والے معاہدے کو جاری رکھنے سے متعلق پُر امید ہے۔ خیال رہے کہ اس معاہدے میں ایران نے اپنے اوپر مغربی ممالک کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کو ہٹانے کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
علی اکبر صلاحی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یورپی ممالک کی کوششیں رنگ لائیں گی تاہم امریکا کا رویہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں میں ایک قابلِ اعتماد ملک نہیں۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 8 مئی کو ایرانی معاہدے سے انخلا کے اعلان کے بعد یورپی ممالک نے کہا تھا کہ ایرانی تیل اور سرمایہ کاری کو جاری رکھیں گے، تاہم انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ تہران کو اس کی خواہش کے مطابق گارنٹی دینے میں پریشانی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اس معاہدے کو ایران کو اپنے جوہری پروگرام روکنے کے لیے اہم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے ایران سے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ اور میزائل پروگرام کو ختم کرے۔ ادھر ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ اگر یورپی ممالک اس معاہدے کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر وہ 20 فیصد یورینیم کی افزائش کو دوبارہ شروع کردے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپی ممالک کے پاس اپنے وعدے کا پاس رکھنے کے لیے صرف چند ہفتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوگئے تو پھر ایران اپنے انتہائی آپشن کی جانب چلا جائے گا۔