برسلز (نیوز ڈیسک ) مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر یورپی پارلیمنٹ کا شدید ردعمل، بھارت کی بدترین شکست، مودی سرکار سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور دفعہ 35 اے ختم کرنے کے فیصلے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق بھارت کو پاکستان کیخلاف سفارتی محاذ پر ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔انسانی حقوق کمیٹی کی چئیرپرسن ماریہ ایرینا نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال بہت خراب ہے جبکہ اجلاس کے شرکاء نے مودی سرکار سے مطالبہ کیا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور دفعہ 35 اے ختم کرنے کے فیصلے کو فوری طور پر واپس لے۔یورپی یونین کے ارکان پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی انتظامیہ کا رویہ قابل مذمت ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو فوراً ہٹایا جائے اور بھارت کو فوری مذاکرات شروع کرنا چاہئیں۔اراکین نے کہا کہ یورپی یونین اور یورپی پارلیمنٹ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر فوری اور باضابطہ رد عمل ظاہر کریں۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی کا اجلاس رکوانے کیلئے بھارت نے بھرپور کوششیں کی تھیں تاہم اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اجلاس کے رکوانے کیلئے بھارت کا خصوصی وفد برسلز پہنچا تھا اور سر توڑ کوششیں کیں کہ کسی طرح یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی مقبوضہ کشمیر سے متعلق بلایا گیا اجلاس منسوخ کر دے۔ تاہم اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کا وفد اجلاس ہونے سے قبل ہی اپنے ملک واپس چلا گیا۔ دوسری جانب ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے مالدیپ میں چوتھی ساؤتھ ایشیائی اسپیکر کانفرنس کے دوسرے روز افغانستان پارلیمانی وفد سے سائیڈ لائن ملاقات کی۔ افغانستان کے وفد کی قیادت اسپیکر افغانستان پارلیمنٹ نے کی۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے افغانستان کے پارلیمانی وفد کو کشمیر کی موجودہ صورتحال اور پاکستان ھندوستان کشیدگی کے بارے میں تفصیلی بریفننگ دی اور انھیں اس کشیدہ صورتحال میں پاکستان کے اقدامات سے متعلق اعتماد میں لیا۔کشمیر کی صورتحال سے متعلق افغانستان کے پارلیمانی وفد کو آگاہ کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ کشمیر میں ھندوستان نے 5 اگست سے کرفیو نافذ کیا ہوا ہے۔ہندوستان نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 370 اور 35-A کے تحت کشمیر کو دی گئی بطورِ ریاست خصوصی حیثیت کو ختم کیا اور وہاں پر کالا قانون نافذ کر کے کشمیریوں کے انسانی حقوق غصب کروا دیئے۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے ہی ہندوستان کی 6 لاکھ افواج موجود تھیں اور اب ھندوستان نے مقبوضہ وادی میں مزید فوج بھیج دی ہے۔ ھندوستان کی افواج نہتے کشمیریوں پر ہر طرح کا ظلم کر رہی ہے۔ 5 اگست سے نافذ کرفیو کو آج 27واں دن ہو گیا ہے۔ قاسم خان سوری نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو عبادت نہیں کرنے دی جا رہی ہے اپنے مذہبی تہوار نہیں منانے دیئے جارہے، ہر گھر کے باہر ایک ھندوستانی فوجی بیٹھا ہوا ہے بچے اسکول نہیں جا سکتے ہسپتال بند پڑے ہیں شہریوں کو ادویات میسر نہیں ہیں کروبا بند پڑے ہیں اور حتیٰ کہ میڈیا کو کوریج نہیں کرنے دی جارہی ہے اور وادی میں مکمل بلیک آؤٹ ہے۔قاسم خان سوری نے افغانستان پارلیمانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور اپنا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے ہم نے کشمیریوں کیلئے پوری دنیا میں آواز اٹھائی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جانا چاہیے اور ہم ان قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ کشمیریوں کیلئے بھرپور آواز اٹھانے پر پہلے بھی ھندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا جس کے جواب میں پاکستان نے اپنا دفاع کرتے ہوئے ھندوستان کے جہاز مار گرائے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ پاکستان اپنا دفاع کرنا جانتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے ھندوستان کے پائلٹ کو بھی پکڑا اور صرف اس وجہ سے رہائی دی کہ پوری دنیا کو خیر سگالی کا پیغام دیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن ہم اپنے ملک کے دفاع سے کبھی بھی غافل نہیں ہیں۔ قاسم خان سوری نے کہا کہ ھندوستان نے ایک بار پھر کشمیر میں جارحیت کی ہوئی ہے اور خطے میں امن کیلئے افغانستان کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے یہ 80 لاکھ سے زائد معصوم انسانی جانوں کا مسئلہ ہے۔ افغانستان کی نیشنل اسمبلی کے اسپیکر نے پاکستانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک برادر ملک ہے اور ہم ہر مشکل وقت میں پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ دونوں ملکوں کے وفود میں پیس پراسس کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ پاک-افغان بارڈر صورتحال، تجارت اور دونوں برادر ممالک کے درمیان خطے میں پائیدار امن کیلئے بھرپور کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔