تحریر : صباء نعیم
وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے عوام کو غربت، ناخواندگی اور دیگر سماجی برائیوں سے نجات دلانے کیلئے سارک کے رکن ممالک کے ساتھ ملکر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ پاکستان خطے کے عوام کی امیدوں کو پورا کرنے کیلئے کردار ادا کرتا رہے گا۔ سارک وزرائے خزانہ کے آٹھویں اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سارک تنظیم کو لوگوں کی توقعات کے مطابق مزید فعال بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں سارک کے رکن ممالک، سیکرٹریٹ، علاقائی مراکز اور خصوصی تنظیمیں مربوط، پائیدار اور ٹھوس کوششیں کریں۔ تین دہائیاں قبل سارک تنظیم کا قیام سماجی بہبود کے فروغ، معیار زندگی بہتر کرنے اور ثقافتی ترقی کے عزم کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا۔
ایک دوسرے پر بڑھتے ہوئے انحصار اور مشترکہ مسائل سے علاقائی حل تلاش کرنے کی ضرورت بڑھی ہے جبکہ بڑھتے ہوئے رابطے، مواصلات میں آسانی آزاد تجارت اور غربت، بھوک و غذائی تحفظ سے دنیا کو علاقائی تعاون کو بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ امید کرتا ہوں سارک ممالک جنوبی ایشیا اکنامک یونین کو حقیقت بنائیں گے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سارک وزرائے خزانہ کانفرنس میں سائوتھ ایشین فری ٹریڈ ایریا (سافٹا) کو سائوتھ ایشین اکنامک تعاون کے جانب بڑھانے، دوہرے ٹیکسوں سے بچائو، کسٹم کے معاملات آسان بنانے، ٹریڈ ان سروسز میں سارک معاہدہ کو نافذ کرنے، تجارت سے متعلق کسٹم امور پر فوکس کرنے سرمایہ کاری بڑھانے اور تحفظ فراہم کرنے کیلئے سارک معاہدہ کے ڈرافٹ کو مکمل کرنے پر رکن ممالک نے اتفاق کر لیا ہے۔
سارک وزرا خزانہ کانفرنس میں افغانستان کے پاکستان میں سفیر ڈاکٹر حضرت عمر، بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ ایم اے منان، بھوٹان کے وزیر خزانہ لیون پو نامگے ڈورجی، مالدیب کے ڈپٹی منسٹر عبد الحلیم عبد الغفور، نیپال سے ڈپٹی پرائم منسٹر کریشن بہادر، سری لنکا کے وزیر خزانہ راوی، بھارت کے سیکرٹری اکنامک افیئر شکتی کانتا داس، سارک سیکرٹریٹ سے سیکریٹری جنرل ارجن بہادر تھاپا اور اسحاق ڈار نے شرکت کی۔
جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی ایک اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو تقریباً 1 اعشاریہ 47 ارب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تنظیم 8 دسمبر 1985ء کو بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیب اور بھوٹان نے قائم کی تھی۔ 3 اپریل 2007ء کو نئی دہلی میں ہونے والے تنظیم کے 14 ویں اجلاس میں افغانستان کو آٹھویں رکن کی حیثیت میں تنظیم میں شامل کیا گیا۔ تنظیم کے مقاصد میں زراعت و دیہی ترقی، مواصلات، سائنس، ٹیکنالوجی’ موسمیات، صحت و بہبود آبادی، ذرائع نقل و حمل اور انسانی ذرائع کے شعبہ جات میں تعاون شامل ہے۔
جنوبی ایشیا کی ترقی میں سارک کا کردار موثر نہ ہونے کی بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات سے پیدا ہونیوالی کشیدگی کو سمجھا جاتا ہے۔ انہی اقتصادی، سیاسی اور علاقائی کشیدگیوں کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک مشترکہ معیشت کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اپنے قیام سے ا?ج تک یہ تنظیم ”نشستند، گفتند، برخاستند” کی مثال بنی ہوئی ہے۔ اسکی پوری ذمہ داری ہٹ دھرم بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ وہ سارک جیسے پلیٹ فارم کو بھی اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا ہے۔ رواں ماہ اسلام آباد میں وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں راجناتھ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاتے رہے۔ پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار نے ان کو دوٹوک اور مدلل جواب دیا تو بھارتی میڈیا اور حکمران تلملا اٹھے۔ وزیر دفاع منوہر پاریکر پاکستان میں آمد کو جہنم جانے سے تعبیر کرنے لگے۔
وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے رواں وزرائے خزانہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کرکے خانہ پری کیلئے سیکرٹری اکنامک افیئر کو بھیج دیا۔ ممبر ممالک کے مابین تنازعات طے کرانا بھی سارک تنظیم کے مقاصد میں شامل ہے۔ ممبر ممالک کے مابین تنازعات طے اور مسائل حل ہو جاتے ہیں تو اس تنظیم کے مقاصد کماحقہ پورے ہو سکتے ہیں ورنہ اسکی مثال بے لگام سرپٹ دوڑتے گھوڑے جیسی ہوگی جو کسی منزل پر نہیں پہنچ پاتا۔پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل اور افغانستان کے ذریعے پاکستان میں بھارتی مداخلت روکنے کیلئے سارک پلیٹ فارم کو استعمال کر سکتا ہے۔ ایسے مسائل کے ہوتے ہوئے سارک تنظیم کے دیگر مقاصد بھی پورے نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں فری ٹریڈ اور تاجروں کے فری ویزے پر کبھی متفق نہیں ہو نگے۔ ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری عموماً گرم رہتی ہے۔
بھارت پاکستان میں مداخلت سے باز نہیں آتا اور جھوٹے الزام لگا کر پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ ایسے میں زراعت و دیہی ترقی’ مواصلات’ سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں کیا خاک تعاون ہوگا۔ گو پاکستان اور بھارت کے سوا دیگر ممالک زیادہ طاقتور نہیں تاہم سارک کی صورت میں ایک مضبوط اور منظم تنظیم کے طور پر ضرور سامنے آسکتے ہیں۔ اگر یہ تنظیم کی صورت میں بھارت پر مسئلہ کشمیر حل کرنے اور پاکستان میں مداخلت بند کرنے پر زور دینگے تو بھارت کو انکی بات سننا پڑیگی اگر بھارت ان کو نظرانداز کرتا ہے تو اسے سارک سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ اسکے سوا بھارت نے کوئی اور ممکنہ راستہ نہیں چھوڑا ہے۔ سارک کو ممبر ممالک کے مابین تنازعات طے کرانے کیلئے پاکستان نے قائل کرنا ہے۔
آج مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر کشمیری عوام آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہے۔ کشمیری بھارت کے پنجہ اسبتداد سے نجات اور آزادی کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی بربریت کی داستانیں دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں’ ان پر عمل کیلئے ایک ماحول اور ٹمپو بن رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اسے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں متعین سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک چین’ روس’ امریکہ’ برطانیہ’ فرانس اور یورپی یونین کے رکن ملکوں کے سفیروں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے کشمیری عوام کے قتل عام اور انکے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی گئی۔ رواں سال 8 جولائی کے بعد سے اب تک بھارتی سفاک سپاہ کے ہاتھوں’ 80 کشمیری حریت پسند شہید ہوچکے ہیں۔ پیلٹ گنوں سے زخمی اور بینائی سے محروم ہونیوالوں کی تعداد 7 ہزارسے متجاوز ہے۔ بھارتی بربریت بدستور جاری ہے۔ کئی شہروں میں کرفیو نافذ ہے’ ہڑتالیں جاری ہیں۔سرتاج عزیز نے سفیروں کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ بھارت نے پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور یورپی یونین کے ملکوں نے مسئلہ کشمیر کو پرامن انداز میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی طرف سے مذاکرات کیلئے آمادگی کی تعریف کرتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کیلئے مذاکرات کی اہمیت اجاگر کی۔ ان ممالک کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں۔
گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر میں آزادی مارچ ہوا اور پاکستانی پرچم کو مقبوضہ وادی میں سات لاکھ مسلح بھارتی افواج کی موجودگی میں سلامی پیش کی گئی۔ سری نگر میں سینکڑوں افراد سبز لباس میں ملبوس کرفیو کی پابندیاں توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ بندوقوں کے سائے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں کشمیریوں کا اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر مظاہروں کیلئے نکل آنا انکے حریت کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ یہ عالمی ضمیر خصوصی طور پر سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کے ضمیر کو جھنجوڑنے کیلئے کافی ہے۔ یہ طاقتور اور موثر ممالک زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھیں’ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق استصواب دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
تحریر : صباء نعیم