تحریر: ایم ایم علی
مظفر گڑھ میں حوا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والی ظلم زیادتی کی انتہا نے مجھ سمیت ہر باشعور آدمی کو یہ سو چنے پر مجبور کر دیا ہے ،کہ کیا ہم واقعی ایک اسلامی جمہوریہ ریاست میں رہ رہے ہیں ۔ملک پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لہذہ اس کا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہی کہلائے گا ،کیا ایک اسلامی معاشرے میں حواکی بیٹوں کے ساتھ ظلم زیادتی کی انتہا ایک انتہائی افسوس ناک بات نہیں ؟۔حالانکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں عورت کو سب سے زیادہ عزت اور توقیر دیتا ہے ، سونیا کا تعلق بھی ہمارے ملک کے ایک ضلع مظفرگڑھ سے تھا، یوں تو ہمار ا پورا ملک ہی جاگیر داروں اور سر مایہ داروں کی ریاست ہے ،لیکن جس علا قے سے سونیاتعلق رکھتی تھی ان علاقوں میں اس طرح کے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
ان علاقوں میں جاگیر دار اور وڈیرے اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں ،وہ خاص مقام یہ ہے کہ ان علاقوں میں قانون بھی ان کا ہے اور پنچایت کے نا م پر عدالتیں بھی وہ خود لگاتے ہیں،وہ جسے چاہیں مجرم ٹھہرا کر سزا سنا دیں اور جسے چاہیں باعزت بری کر دیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں،اور پوچھنے والا ہو گا بھی بھلا کون ؟ ہمارے ملک کا قانون تو ویسے ہی اندھا ہے ،اس قانون کی آنکھوں پر تو مال و دولت کی حرص کی پٹی بندھی ہوئی ہے ۔ مظفر گڑھ کی اس حوا کی بیٹی کی عزت تار تار کرنے والے بھی کوئی اور نہیں بلکہ اس کی عز ت اور جان و مال کے رکھوالے پولیس والے تھے۔ جس معاشرے میں عزتوں کے رکھولے ہی عزتوں کے لٹیرے بن جائیں وہاں بھلا انصاف کی کیا توقع کی جا سکتی ہے، لیکن آفرین ہے اس ہوا کی بیٹی پر جو اس تاریک اور گھٹے ہوئے ماحول میں آنکھیں کھولنے کے با وجود حصول انصاف کیلئے بار بار تھانے کے چکر لگا رہی تھی ۔
مگر جب انصاف ملنے کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو اس حوا کی بیٹی نے تھانے کے سامنے ہی اپنے اوپر پیٹرول چھڑک کا خود کو آگ لگا لی ۔قارئین کرام!پولیس کا محکمہ بنایا تو عوام کی خدمت کیلئے گیا تھا اور اس محکمے کا پہلا بنیادی مقصد جرائم پہ قابو پانااور دوسرا بنیادی مقصد عوام کی خدمت ہے،لیکن پولیس عوام کی خدمت کیسے کرتی ہے اس کی کئی مثالیں الیکٹرنک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر آئے روز پڑھی اور دیکھی جا سکتی ہیں ۔ عام آدمی اتنا تو شاید کسی بدمعاش اور غنڈے سے بھی نہیں ڈرتا ہو گا جتنا پولیس سے ڈرتا ہے ۔ویسے تو آپ کو تقریبا ًسب تھانوں میں ایک حدیث شریف لکھی ہو ئی ملے گی کہ( رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں) لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ رشوت اور سفارش کے بغیر اس محکمے سے کوئی جائز کام بھی ہو جانا معجزہ تصور کیا جاتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کے سب پولیس والے ایک جیسے ہوتے ہیں یا پورے کا پورا پولیس محکمہ کرپٹ ہے ۔ کیو نکہ کوئی بھی محکمہ پورے کا پورا خراب نہیں ہو تا ،صرف چند لوگوں کی برائی کو پورے محکمے کی برائی کہنا مناسب نہیں ہوگا ۔ کئی پولیس والوں نے فرائض منصبی کی ا دئیگی کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے ہیں،لیکن اس محکمے کو لے کر عام عوام کے اندر جو رائے پائی جاتی ہے وہ انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ مظفرگڑھ میں پیش آنے والے اس دلخراش واقعہ کے بعد وزیر اعلی پنجاب خود مظفر گڑھ کی نواحی بستی دین پورہ میں انصاف نہ ملنے پر خود سوزی کرنیوالی خاتون سونیا کے گھر پہنچے، انہوں نے اصل ملزموں کا جلد از گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا اور ڈی پی او مظفر گڑھ کی سرزش بھی کی اس کے علاوہ متعلقہ ڈی ایس پی سمیت اس تھانے کے ایس ایچ او کو لا پروائی برتنے پر معطل کر دیا۔ لیکن کیا صرف پولیس اہلکاروںکی معطلی کا فی ہے ؟۔
کیونکہ پہلے بھی کئی واقعات میں پولیس افسران سمیت کئی پولیس اہلکاروںکو معطل کیا جاتا رہا ہے لیکن کچھ دنوں بعد وہ دوبارہ بحال کر دئیے جاتے ہیں ۔کیو نکہ ان کو معطل کرنے کے بعد ان کی انکوئرای ان ہی کے پیٹی بند بھائیوں کے سپر د کر دی جاتی ہے گویا ( دودھ کی راکھی بلا )اب ظاہر ہے پیٹی بھائی اپنے پیٹی بھائیوں سے اس طرح سے تفتیش تو کریں گے نہیں جس طرح کی تفتیش وہ عام لوگوں سے کرتے ہیں ۔اگر آزادانہ تجزیہ کیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگی ،کہ اگر پولیس کا محکمہ اپنے فرائض کی انجام دہی ٹھیک طریقے سے کرے تو ہمارے ملک میں 80 فیصد جرائم پہ با آسانی قابو پایا جاسکتا ہے ،کیونکہ اکثر جرائم پیشہ لوگوں کو اسی محکمے میں موجود چند کالی بھیڑوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے بلکہ کئی جرائم میں تو یہ کالی بھیڑیں براہ راست ملوث ہوتی ہیں ۔ میں عمران خان صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہو ں کہ جب تک پولیس کو سیاست سے پاک نہیں کیا جا تا تب تک اس ملک میں انصاف کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔
کیونکہ ہماری پولیس عوامی خدمت کی بجائے سیاست دانوں کی خدمت میں مصروف عمل رہتی ہے ، اگر تھانہ کلچر تبدیل کرنا ہے اور پولیس کا قبلہ درست کرنا ہے تو سب سے پہلے پولیس کو سیاسی وابستگی کی زنجیروں سے آزاد کرنا ہوگا،کیو نکہ ہمارے ملک میں پولیس ایک سیاسی فورس بن کر رہ گئی ہے ۔سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کیلئے اور طاقتور کمزروں کو دبانے کیلئے جاگیر دار اور وڈیرے اپنے مزاروں کو ڈرانے دھمکانے اور ان پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے اس فورس کا استعمال کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کے محکمہ میں موجود ان کالی بھیڑوں کے حوصلے بھی اسقدر بلند ہوگئے ہیں کہ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں ، اور جن کو لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنی چاہیے تھی وہ خود ہی لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ قارئین!یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ محکمہ پولیس سے عام آدمی کا اعتماد کم ہو تے ہوتے بالکل ہی ختم ہو چکا ہے۔
کیونکہ جہاں مجرم کو پرٹوکول دیا جائے اور بے گناہ کو سزادی جائے مظلوم کی داد رسی کی بجائے اس کو دھکے دیے جائیں گے تو بھلا ایسے محکمے پر کوئی اعتماد کیونکر کرے گا ؟ (یار لوگوں) کا کہنا ہے کہ حکومتیںاگر ذاتی دلچسپی لیں تو اس محکمے کی اصلاحات کر کے اس کو ایک عوامی محکمہ بنا سکتی ہیں جہاں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عام آدمی اپنی فریاد لے کر جاسکے اور اس کو اس بات کا قوی یقین ہو کہ تھانوں میں اس کی داد رسی کی جائے گی اور اس کو انصاف ملے گا۔ اگر حکومت جرائم کی پشت پناہی کرنے والوں یا براہ راست جرائم میں ملوث ان پولیس اہلکاروںکو بے نقاب کر کے ان کو قرار وقع سزائیں دے تواس سے عام آدمی کا اس محکمے میں اعتماد بحال ہو گااور آئندہ کسی حوا کی بیٹی کو تھانے کے سامنے زندہ جل کر مرنا نہیں پڑے گا۔
تحریر: ایم ایم علی