لاہور; دنیا کے پہلے ہر دل عزیز اور عالمی شہرت یافتہ سٹار جارلی چیپلن کی شاندار صحت اور ان کی آخری فلم” اے کاؤنٹس فرام ہانگ کانگ” کی تکمیل کے بعد 1960 کی آخر میں گرنے لگی جبکہ انہیں 1970 کی دہائی میں اکیڈمی ایوارڈ ملنے کے بعد اس میں تیزی آگئی
اور 1977 تک انہیں بولنے اور چلنے میں شدید مشکل ہو نے لگی جس کے لیے انہوں نے ویل چیئر کا استعمال بھی کر نا شروع کر دیا،اپنی عمر کے آخری ایام میں انہوں نے سوئٹزرلیڈ کے شہر جنیوا لیک کے کنارے گزارے جبکہ 25 دسمبر کو پوری دنیا میں موجود مسیحی برادری جب کرسمس کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی بد قسمتی سے اس عظیم فنکار کا بلاوا آگیا ،اس موقع پر جب بستر مرگ کے قریب بیٹھے ایک پادری نے کہا کہ خداوند آپ کی روح پر فرمائے جس پر جارلی چیپلن نے اپنے آخری الفاظ پولتے ہوئے کہا کہ یہ روح ہی تو ہے۔ 1977 میں کرسمس کے موقع پر ان کی موت کی خبر نے پوری دنیا کو صدمے میں مبتلا اور ہلا کر رکھ دیا اور پوری دنیا میں کرسمس کی خوشی غم میں تبدیل ہو گئی تھی، چارلی چیپلن کو کوسک سیوری قبرستان ہواورڈ سوئٹزر لینڈ میں دفن کیا گیا، ان کی وفات ے تین دن ہی گزرے تھے کہ یکم مارچ 1978 کو سوئٹزر لینڈ میں اغواء کی ایک واردات عمل میں آئی دو بے روزگار اغواکاروں نے منصوبے کے تحت چارلی چیپلن کی لاش چرا لی، اغواکاروں نے چیپلن کے گھر والوں سے رقم لینے کی خاطر یہ حرکت کی تھی، جو کہ واپس کرنے ے بدلے میں انہیں 6 لاکھ سوئس فرانک ملے تھے۔آخر یہ منصوبہ بندی ناکام ہو گئی اور 11 ماہ لگاتار کوششوں کے بعد چارلی چپلن کی لاش سوئٹزر لینڈ کی ایک جیل کے پاس سے برآمد ہوئی اور چوروں کو گرفتار کر لیا گیا۔جس کے بعد انکی لاش کو ایک گہری قبر میں دفنایا گیا اور اوپر سیمنٹ کی تہہ ڈال دی گئی تاکہ مستقبل میں ایسی حرکت دوبارہ نہ کی جا سکے۔