تحریر : علینہ ملک
سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشاد باری تعالء ہے. “پاک ہے ذات اس (خدا) کی جس نے سیر کراء اپنے بندے(محمدرسول ۖ) کو رات کے ایک حصے میں مسجدالحرام سے مسجداقصی تک. جس کا ماحول (اردگرد)ہم نے مبارک بنایا تاکہ اس (بندے) کو نشانیاں دکھائیں ،یقیناوہ (اللہ) بہت سننے والا ہے ” واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے مکہ میں ظہور پذیر ہوا ، جو کہ اللہ تعالء کی قدرت کاملہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے جو چشم ذدن میں رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ اور اس کا رسول صہ ہی بہتر جانتا ہے.
نبوت کے دسویں سال ایک رات آپ کوہ صفا ومروہ کے درمیانی وادی میں جو مکہ سے ملعق ہے آرام پذیر تھے کہ یکایک جبرائیل امین نے آکر آپ کو بیدار کیا ،ان کے ہمراہ ایک مائل سفید راہوار ہے ،جس پر آپ کو سوار ہونے کی ہدایت کی جس کا نام براق ہے اور اس میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو اڑن کھٹولوں اور آسمانی رتھوں کو حاصل ہیں اور جس پر سوار ہوکر بنی پاک نے رات کے ایک حصے میں خانہ کعبہ سے مسجداقصی اور مسجداقصی سے ساتوں آسمانوں کے ملکوت اور عجائبات کی سیر اور بہشت اور دوزخ کے نظارے کرتے ہوے عرش معلی پر تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو دروازے کی زنجیر ہل رہی تھی اور بستر جس
پر آپ آرام فرما تھے
ویسا ہی گرم تھا اور پانی بھی چل رہا تھا اسی وجہ سےبعض لوگ آپ کی جسمانی معراج کے قائل نہیں ان کا کہنا ہے کہ آپ نے یہ سبخواب میں دیکھا. مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ نے مسجد الحرام سے مسجداقصی اور وہاں سے آسمانوں میں سدر?المنتہی اور عرش معلی کی جو سیر کی وہ معراج بدن سے تھی نہ کہ بے بدن روح سے تھی اور بیداری میں تھی نہ کہ خواب میں. اگر اس واقعہ کو سائنس کی روح سے سمجھا جائے تو آپ کے اس سفر کی حقیقت بہت حد تک سمجھ آجاتی ہے. آئن آسٹائن کے مطابق مادی اشیاء کے سفر کرنے کی آخری حد روشنی کی رفتار ہے جو86000 1میل فی سیکنڈ ہے.
دوسری رفتار قرآن حکیم نے امر کی بتاہی ہے جو پلک جھپکنے میں پوری کائنات سے گزر جاتی ہے. “اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا ” (سورہ قمر ) جبرائیل عہ نے آپ صہ کو برق پر سوار کیا ،براق برق سے نکلا ہے جس کے معنی بجلی ہیں اور جس کی رفتار 186000میل فی سیکنڈ ہے ،اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لئے تھم جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیوں کہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے. جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے تو وہ آدمی خود کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لئے تھم جاتی ہے. جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا تو اس کے لئے چاہے سینکڑوں برس اسی حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گا اور جوں ہی وقت کے گھوڑے سے اترے گا وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک کرنا شروع کردے گی.
چاہے وہ آدمی پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے.بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ 86 ہزار میل کے فاصلے پر رکھ دیں،سوئچ آن کرتےہی ایک سیکنڈ میں وہ بلب جل اٹھے گا ،یہ برقی رو کی تیز رفتاری ہے اورپھر ہوا کی تیز رفتاری بھی اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے. اب معراج شریف میں چاہے ہزار برس صرف ہوگئے ہوں یا ایک لاکھ برس وقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. یہ مالک جل شانہ کی قدرتیں لاانتہا ہیں وہ ہر بات پر قادر ہے کہرات کو جب تک چاہے روکے رکھے اگر وہ روکے تو کوئی اس کی ذات پاک کے سوا نہیں کہ دن کو نکال سکے.
قرآن پاک میں فرما یا.. ، “آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ اگر قیامت تک تم پر رات کو مسلط کردے تو اس کے سوا کون روشنی لاسکتا ہے ” غرض واقعہ معراج جس کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 1 اور سورہ نجم کی آیت1 سے 18 تک میں ہے کی صداقت کی روشنی میں ثابت کیا جاسکتا ہے اور یہ بات عیاں ہے کہ انسان زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہوکر لامکاں کی وسعتوں تک پہنچ سکتا ہے..
تحریر : علینہ ملک