لاہور: فوج نے اپنے خلاف برطانوی نژاد سماجی رکن کے اغوا سے متعلق تمام قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
واضح رہے کہ 52 سالہ گل بخاری آرمی پر تنقید کے حوالے سے مشہور تھیں اور انہیں 5 جون کو لاہور سے نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا تھا جبکہ اغوا کی واردات سے ایک روز قبل ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں پاکستان پر تنقید کرنےوالوں کے خلاف مانیٹرنگ کا عندیہ دیا گیا تھا۔فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذکورہ واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور تمام ناقدین کا اشارہ فوج پر تھا۔بعدازاں گل بخاری کو 6 جون کو چھوڑ دیا گیا۔دوسری جانب برطانوی ہائی کمیشن نے گل بخاری کے اغوا پر ‘تحفظات’ کا اظہار کرتے ہوئے فوج سے اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے 8 جون کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ‘گل بخاری کو اغوا کرنے میں فوج کا کوئی دخل نہیں ’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم دراصل خود معاملے کی مکمل تحقیقات چاہتے ہیں’۔فوج کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید کے پیش 11 مئی کو کیثر المقاصد امور پر مبنی پریس کانفرنس میں فوج نے غیر محسوس طریقے سے سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کو خبردار کیا اور کہا تھا کہ ان کے پاس سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ کی مانیٹرنگ کرنے کی صلاحیت ہے۔دوران پریس کانفرنس میجر جنرل غفور نے متنازع ٹوئیٹراکاؤنٹس اور ان کے نام بھی دکھائے جسے ایک نامور صحافی آپریٹ کررہا تھا لیکن انہوں نے صحافی سے متعلق مزید تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں۔8 مئی کو انہوں نے کہا کہ ‘ان کا مقصد صحافیوں کو مورد الزم ٹھہرانا مقصود نہیں’۔