محمد اخلاق سابق ہاکی اولمپیئن ہیں، بارسلونا اولمپکس 1992میں برانز میڈل جیتنے والی قومی ٹیم کا حصہ بھی رہے، بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما سمیت متعدد انٹرنیشنل ٹیموں کی کوچنگ کے ساتھ بنگلہ دیش میں 2010 میں شیڈول ساف گیمز میں بھارتی ٹیم کو زیر کر کے طلائی تمغہ جیتنے والی قومی ٹیم کے کوچ بھی تھے، بات بڑی منطق اور دلیل کے ساتھ کرتے ہیں، چند روز قبل سوشل میڈیا پر ان کی ایک پوسٹ پڑھی جس میں تحریر تھا کہ ایشین چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد بھارتی ٹیم اسی ماہ آسٹریلیا کا دورہ کرے گی جبکہ ایشیائی ٹائٹل گنوانے والی پاکستانی ٹیم کدھر جائے گی۔
ارباب اختیار سے سوال ہے کہ کہاں گئے وہ دن جب دنیا کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہے تو پاکستان جاؤ، جب 1994ء کے ورلڈ کپ میں قومی کھلاڑیوں کے غیر معمولی کھیل کو دیکھ کر گورے عش عش کر اٹھے تھے اور کپتان شہباز احمد سینئر کو روک روک کر بڑے فخریہ انداز میں کہتے تھے’’ یو آر جینیئس، یو آر لیجنڈآف ہاکی‘‘ کہاں گئے وہ منیر ڈار، رشید جونیئر، اصلاح الدین صدیقی، شہناز شیخ، اختر رسول چوہدری، حسن سردار، منظور سینئر اور منظور جونیئر جن کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا، کہاں گئے وہ دن جب اولمپکس، ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی یا دنیا کے بڑے سے بڑے ایونٹ کا پاکستان کے بغیر ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اب پاکستانی ٹیم ان مقابلوں میں دور دور تک ایکشن میں نظر نہیں آتی۔
آج ملائیشیا، کینیڈا، چین یا جاپان کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے بھی طرح طرح کے وسوسے جنم لیتے ہیں کہ کہیں ہار کا منہ ہی دیکھنا نہ پڑ جائے، جیت کی صورت میں اس طرح کا جشن منایا جاتا ہے جیسے ہم نے اولمپکس یا ورلڈ کپ جیت لیا ہے یا کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے، پاکستانی ٹیم ایشین چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل ہارتی ہیں تو ہمارے ٹیم منیجر بڑی ڈھٹائی سے بیان دیتے ہیں کہ خامیاں دور، ہاکی کا سنہری دورجلد واپس آئے گا، حنیف خان بلاشبہ ہاکی کے بڑے کھلاڑی رہے ہیں لیکن ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے اس طرح کے بلندوبانگ دعوے سنتے سنتے شائقین کے کان پک گئے ہیں اور وہ یہ جان چکے ہیں کہ عہدیداروں کے اس طرح کے بیانات کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
فیڈریشنز تو دور کی بات ان ملکوں کے کلبوں کے پاس بھی فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہوتی جبکہ ہمارے مالی معاملات کی صورت حال یہ رہتی ہے کہ بسا اوقات پی ایچ ایف کے پاس چائے تک کے پیسے نہیں ہوتے ، یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن کبھی کسی نے سوچا اور غور کیا کہ جب فیڈریشن کا خزانہ خالی ہوتا ہے تو اسے بھرنے کے لئے حکومت کے آگے ہی کیوں جھولی پھیلائی جاتی ہے، عہدیدار خود سے سرمایہ اکٹھا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے، زیادہ نہیں تو کم از کم مارکیٹنگ کا شعبہ ہی بنا لیں تاکہ بہت زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت سرمایہ ہی آتا رہے، ارباب اقتدار سے سوال ہے کہ اگر پاکستان بیس بال فیڈریشن، فٹبال فیڈریشن،سکواش ایسوسی ایشن یا کھیلوں اور تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز اکٹھے کر سکتی ہیں تو ہاکی فیڈریشن ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔
راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حکومت کی طرف سے پی ایچ ایف کو فنڈز ملتے ہیں تو شاہ خرچیوں کی انتہا کر دی جاتی ہے، نیوٹرل مقام پر ٹیموں کے ٹریننگ کیمپس لگائے جاتے ہیں، انٹرنیشنل ایونٹس کی آڑ میں فیڈریشن عہدیداروں، ان کی فیملیز، دوستوں یاروں کے دنیا بھر کے سیر سپاٹے شروع ہو جاتے ہیں، ٹی اے ڈے اے کی مد میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں روپوں کی دیہاڑیاں لگتی ہیں، بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرنے، لگژری گاڑیوں میں پھرنے اور مختلف اقسام کے کھانے کھانے کو الگ سے ملتے ہیں، عہدیداروں کو مستعفی ہو کر یا برطرف کر کے جب گھر بھیجا جاتا ہے تو ان شاہ خرچیوں کے نتیجہ میں فیڈریشن کروڑوں روپے کی مقروض ہو چکی ہوتی ہے،خزانہ خالی ہوتے ہی پی ایچ ایف کسی ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے، ہیڈ آفس کو دن دیہاڑے ہی تالے لگا دیئے جاتے ہیں۔
صدر اور سیکرٹری کئی کئی دنوں کے بعد فیڈریشن کا رخ کرتے ہیں، جونہی حکومت کی طرف سے فنڈز ملنے کی دوبارہ نوید ملتی ہے تو ہاکی نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور کی دوبارہ رونقیں بحال ہو جاتی ہیں،سابق اولمپئنز، انٹرنیشنل کھلاڑیوں سمیت نئے نئے چہروں فیڈریشن میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں، عہدوں کے حصول کے لئے فیڈریشن عہدیداروں کو پرانی یاری دوستیوں کی یاد دلائی جاتی ہے، اپنی طرف سے ہر طرح کی وفاداری کا یقین دلایا جاتا ہے، ماضی کے حریف حلیف بن جاتے ہیں، پریس کانفرنسز میں قومی کھیل کو اس کا تابناک ماضی واپس دلانے کے بلندوبانگ دعوے شروع ہو جاتے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ صدر بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں، ان کی نیک نیتی اور ایمانداری پر بھی کسی کوکوئی شک نہیں ہے، سیکرٹری شہباز احمد سینئر کی ہاکی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں تاہم عہدیداروں کی اگلی صفوں میں موجود ان کے قریبی ساتھی ان کے لئے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں، جناب صدر ارسطو نے سکندر اعظم کو ایتھنز سے رخصت کرتے وقت کہا تھا کہ کہ یاد رکھنا کبھی کسی بے وقوف، مفاد پرست اور ناکام شخص کو اپنا مشیر نہ بنانا اور آپ کے مشیروں کی کابینہ میں تو اسے مفاد پرستوں کی کمی نہیں، جناب صدر اور سیکرٹری صاحب ہاکی شائقین آپ کو پی ایچ ایف کے کامیاب عہدیداروں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، کامیابی کی نئی منزلوں اور نئی راہوں کے حصول کے لئے آپ کو اپنے کان اور آنکھیں دونوں کھلے رکھنا ہوں گے۔
About MH Kazmi
Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276