*یہ کتاب نہیں چنگاری ہے*
✍نذر حافی
قاسم سلیمانی کی شہادت کے روز اس کرّہ ِ ارض پر سوائے امریکی، صہیونی اور داعشی ٹولوں کے ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر شخص نے کسی نہ کسی انداز میں شہید کے ساتھ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا۔ شہید کے جنازے سے لے کر امریکہ مردہ باد کی ریلیوں تک ، ہر طرف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ اس موقع پر بلاتفریقِ مذہب و مسلک ہر غیور اور خوددار انسان نے شہید کی زندگی، خدمات، افکار،اہداف، جدوجہد، شہادت اور مقام و منزلت کے بارے میں اپنی زبان کھولی اور قلم اٹھایا۔
ایسے میں ملت پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ پاکستانی قوم نے بھی مختلف میدانوں میں شہید کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ ان تاریخی لمحات میں پاکستانی قوم کے جذبات، تاثرات اور تجزیات کو ایک مستند دستاویز کی صورت میں محفوظ کرنا ضروری تھا۔ ظاہر ہے یہ کام جتنا ضروری تھا اتنا ہی مشکل بھی۔
*یہ کام اس لئے بھی ضروری تھا چونکہ ہم سنی سنائی باتوں کے بادشاہ ہیں* ، ہمارے ہاں تحقیق کرنے اور حقائق جاننے کا کوئی رواج نہیں، چنانچہ ہم لوگ بہت آسانی سے دشمن کے پروپیگنڈے کے شکار ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے *ہم قاسم سلیمانی کو پہچاننے کیلئے فلسطینی رہنما اسماعیل ہانیہ کی تقریر سننے کے بجائے داعشیوں کے پروپیگنڈے کو اہمیت دیتے ہیں اور ہم میں سے بعض افراد بھی یہ کہتے ہیں کہ عراق میں قاسم سلیمانی بھی امریکہ کی طرح دخل اندازی کر رہے تھے۔*
ہم اتنے سادہ لوح ہیں کہ ہم میں سے بعض آج بھی یہ نہیں جانتے کہ عراق کے قانون کے مطابق قاسم سلیمانی ایک سرکاری مہمان تھے اور انہوں نے عراق کو داعش کے منہ سے نکال کر واپس عراقیوں کے حوالے کیا جبکہ امریکہ داعش کے ذریعے سارے عراق اور شام کو نگلنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔
یعنی *ایک عراق کا نجات دھندہ ہے اور دوسرا عراق کا دشمن،* لیکن ہماری تحقیقی سطح اتنی سی ہے کہ ہمیں دونوں برابر لگتے ہیں۔
اسی طرح *ہمارے منہ میں ہر وہ بات ہوتی ہے جو داعشی ہمارے کانوں میں ڈال دیتے ہیں۔*
ہم تحقیق کے بغیر داعشیوں کے آلہ کار بن کر انہی کے پروپیگنڈے کو پھیلاتے رہتے ہیں۔ مثلا یہ *قاسم سلیمانی نے تقریر میں پاکستان کو دھمکیاں دی تھیں۔*
اس پروپیگنڈے کا پرچار کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس تقریر کے بارے میں تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی۔
حقیقت حال یہ ہے کہ اس تقریر میں پاکستانی قوم کو غیور ترین اور شریف ترین قوم کہا گیا تھا اور قاسم سلیمانی نے ملت پاکستان سے کہا تھا کہ پاکستانی ایک شریف اور غیور قوم ہیں اور دہشت گرد استعمار کے ایجنٹ ہیں لہذا وہ پاکستان میں بے گناہ سول اور سرکاری افراد کو قتل کر چکے ہیں۔ ملت پاکستان کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرے۔ اس کے بعد انہوں نے یہ جملہ کہا کہ ہم بھی ہمیشہ ان کا تعاقب جاری رکھیں گے۔
*جنہوں نے اس تقریر کے بارے میں تحقیق کی ہے وہ تصدیق کریں گے کہ قاسم سلیمانی نے دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو نے کا جو پیغام عراق اور شام کے عوام کو دیا تھا، وہی پیغام پاکستان کے عوام کو بھی دیا۔*
چونکہ امریکی و اسرائیلی لابی جانتی تھی کہ اگر پاکستانی عوام بھی دہشت گرد ٹولوں کے خلاف متحد ہو گئے تو وہ پاکستان کو *دہشت گردوں کی جنت* کے طور پر استعمال نہیں کر سکیں گے۔
چنانچہ *داعشیوں نے اس تقریر کو عوام میں مقبول ہونے سے روکنے کیلئے یہ افواہ پھیلائی کہ اس تقریر میں ملت پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے۔*
⭕جو لوگ حقائق کو جاننے کے خواہشمند ہیں ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ وہ تقریر ابھی بھی نیٹ پر موجود ہے، اس کا کسی مستند ادارے سے خود ترجمہ کروا کر سن لیں تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ *ہمارے معاشرے میں دشمنوں کا جھوٹ اور منفی پروپیگنڈہ کتنی تیزی سے پھیلتا ہے۔*
امریکی و اسرائیلی لابی اور داعشی و صہیونی پروپیگنڈے کے مقابلے میں برادر توقیر کھرل نے ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے، پروپیگنڈے کے اندھیرے میں اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد موصوف حسبِِ استطاعت شہید کے بارے میں ملت پاکستان کے جذبات، تاثرات اور تجزیات کی جمع آوی میں مصروف ہو گئے۔
یہ کہنا آسان ہے کہ انہوں نے اس کتاب کی جمع آوری کی، لیکن جو احباب کاغذوقلم سے لگاو رکھتے ہیں، شہید اور شہادت کے مرتبے کو سمجھتے ہیں اور قاسم سلیمانی کی شخصیت سے آشنائی رکھتے ہیں وہ یقیناً اس امر کی گواہی دیں گے کہ ایسے کام صرف محنت اور زحمت کرنے سے انجام نہیں پاتے۔نظریات کو عمل میں ڈھالنے کیلئے صرف صحافی ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ تائید غیبی اور نصرت الٰہی کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے اللہ تعالی کی رضا کی خاطر ، اُسی پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اُسی کی مدد سے اس کتاب کیلئے نگارشات کی جمع آوری کا کام شروع کیا، جمع آوری کے تھکا دینے والے کام کے بعد رُلا دینے والے کام یعنی تصحیح، ترتیب و تدوین اور پھر نشرواشاعت کے مراحل کو بھی انجام دیا۔
کسی بھی کام کو انجام دینے والے میں تین خوبیوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ انسان جس کام کا ارادہ کرے اُس میں وہ کام انجام دینے کی صلاحیت بھی موجود ہو، دوسری یہ کہ انسان اُس کام کو پسند بھی کرتا ہو، تیسری یہ کہ انسان اس کام کیلئے زحمت اٹھائے اور محنت کرے۔
اگر انسان ایک کام کا ارادہ کرے لیکن اس میں وہ کام انجام دینے کی صلاحیت نہ ہو، یا صلاحیت تو ہو لیکن وہ اس کام کو پسند نہ کرتا ہو اور یاپھر ایک کام کی صلاحیت بھی ہو، اسے پسند بھی کرتا ہوں لیکن اس کام کیلئے محنت اور جدوجہد نہ کرے تو وہ کام تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ شہید پر مختلف زاویوں سے لکھے گئے کالمز، رپورٹس، تاثرات، خوشگوار یادوں ، شاعری اور تصاویر پر مشتمل یہ اہم دستاویز اس بات پر دلیل ہے کہ برادر توقیر کھرل میں مذکورہ بالا تینوں اوصاف پائے جاتے ہیں۔
اس کتاب کی اہمیت کے بارے میں مزیدکچھ کہنے سے قاصر ہوں، اس لئے کہ یہ کتاب جس عظیم شہید کی خاطر تالیف کی گئی ہے وہ شہید لامحدود عظمتوں کی معراج پر فائز ہے۔اور یہ حُسنِ اتفاق دیکھئے کہ اس عظیم شہید کے بارے میں تالیف کی جانے والی یہ کتاب کائنات کی عظیم ترین خاتون سیدہ دوعالم حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ کی شہادت کے عظیم دن کو مکمل ہوئی ہے۔
ہماری بھی خداوندعالم سے دعا ہے کہ وہ عظیم پروردگار ! برادر توقیر کھرل کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں عظیم عبادت قرار دے ، اورجن بزرگوں اور دوستوں نے ان کی سرپرستی اور معاونت کی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں بھی اجرِ عظیم عطا کرے ۔
یہ کتاب حقیقت اور سچائی کے متلاشیوں کے لئے ایک چراغ اور دشمنان اسلام کیلئے سخت اور خدائی انتقام کی چنگاریوں میں سے ایک چنگاری ہے، یہ ایک ایسی چنگاری ہے جو دشمن کے ہر پروپیگنڈے پر بھاری اور جھوٹ کے ہر انبار کو خاکستر کرنے کیلئے کافی ہے۔
آپ کو جہاں بھی داعشیوں اور صہیونیوں کا منفی پروپیگنڈہ نظر آئے، وہاں یہ کتاب لیجائیے، تب آپ کو احساس ہو گا کہ *ظلم اور تعصب کی کالی رات پر سچائی کی ہلکی سی چنگاری بھی بھاری ہوتی ہے۔*