کسی جنگل میں ایک سیانہ کوا رہتا تھا۔کوا بہت خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ بغیر کسی فکر کے وہ پورا دن گھومتا پھرتا اور طرح طرح کے کھانے پینے کا لطف اٹھاتا۔اندھیر ہوتے ہی کسی خوشبودار درخت پر رات بسر کرتا۔زندگی کے حسین دن گزارتے گزارتے ایک دن جب اس کی ایک ہنس سے ملاقات ہوٸی تو اس ملاقات کے بعد وہ پریشان رہنے لگا۔دراصل اس کی پریشانی کی وجہ یہ فکر تھی جو اسے اندر ہی اندر کھاۓ جا رہی تھی کہ ہنس اتنا سفید ہے اور میں اتنا کالا ،یہ
شرط ہارنے پر لڑکی نے اسٹیڈیم میں ہی حیرت انگیز قدم اُٹھا لیا، شائقین اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے
ہنس دنیا کا سب سے خوش پرندہ ہوگا‘ کوے نے اپنے خیالات ہنس کو بتائے‘ہنس نے کہا اصل میں مجھے لگتا تھا میں سب سے زیادہ خوش ہوں جب تک میں نے طوطا نہیں دیکھا تھا‘ طوطے کے پاس دو مختلف رنگ ہیں‘اب میں سوچتا ہوں طوطا سب سے زیادہ خوش ہوگا‘۔ کوا طوطے کے پاس پہنچا‘ طوطے نے کوے کو بتایا‘ میں بہت خوش زندگی گزار رہا تھا‘ پھر میں نے مور دیکھا‘میرے پاس تو صرف دو رنگ ہیں جبکہ مور کے پاس کئی رنگ ہیں۔ کوا مور سے ملنے چڑیا گھر جا پہنچا‘ وہاں کوے نے دیکھا کہ سینکڑوں لوگ مور کو دیکھنے آئے ہوئے ہیں‘لوگوں کے روانہ ہونے کے بعد کوا مور کے قریب گیا‘ کوے نے کہا پیارے مور ! تم بہت خوبصورت ہو‘تمہیں دیکھنے روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں‘ مجھے لگتا ہے تم دنیا کے سب سے خوش رہنے والے پرندے ہو۔
مور نے جواب دیا‘ میں بھی سوچتا تھا میں سب سے خوبصورت اور خوش پرندہ ہو لیکن میں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے میں چڑیا گھر میں قید ہوں‘ میں نے چڑیا گھر پر کافی غورکیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ صرف کوا وہ واحد پرندہ ہے جو چڑیا گھر کے کسی پنجرے میں قید نہیں‘ پچھلے کچھ دنوں سے مجھے لگتا ہے اگر میں کوا ہوتا تو آزاد ہوتا۔ اگر بغور جاٸزہ لیں تو ہم میں سے کچھ انسان بھی ایسے ہی زندگی گزار دیتے ہیں ۔زندگی کا موازنہ کرتے کرتے ناشکری کرنے لگ جاتے ہیں۔ جو اللہ نے دیا ہوتا ہے اس سے بھی لطف حاصل نہیں کر پاتے۔ اپنے پاس دس روپے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے سو پر نظر رکھنے کیوجہ سے بے چین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن انسان پھر بھی ناشکرا ہے۔اپنے سے زیادہ والے سے موازنہ احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔ موازنہ کرنا ہی ہو تو اپنے سے کمتر سے کیجیے اور پھر اللہ کا شکر کیجیے جس نے اس قدر نعمتوں سے نوازا ہے ـ