نبی پاک ﷺ نے جب کعبہ میں رکھے بت پاش پاش کئے تو ساتھ کہے جاتے تھے ’حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل کو تو مٹنا ہی تھا‘۔ یہ الفاظ نہیں بلکہ انقلاب تھا جو خیر اور شر کی جنگ میں پہلی فتح ثابت ہوا۔
اس کے بعد فتوحات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور صحابہؓ و اہلبیت کا لہو، جو اس جنگ کو حق سے منور کرتا چلا گیا۔ اسی سلسلے کی ایک قربانی کا تذکرہ ہے، جو رہتی دنیا کے لئے شجاعت اور عشق کی ایسی مثال ثابت ہوئی جس کی وجہ سے حق کا وجود لافانی ہوگیا۔یہ عشق کی مشعال تھی جو جلائی حضرت حسینؓ نے اپنے اہل کے لہو سے مل کر اور آج بھی اس عشق کی مہک سے پوری دنیا محو حیرت ہے۔ حسینؓ پر لکھنا ایسا ہی ہے جیسے ’سورج کو چراغ دکھانا‘ مگر ان کی ذات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بڑی کاوش کے بعد میں نے یہ قلم اٹھایا ہے، یہاں ان کی ذات کو مد نظر رکھا ہے پورے واقعہ کربلا کو لکھنا ابھی میرے لئے آسان نہیں ہے اور شاید سمندر کو کوزے میں سمٹنے کا فن بھی نہیں آیا۔ مگر یہاں تھوڑا بہت تذکرہ ہے واقعہ کربلا کا جو حق اور باطل کی جنگ کی نمایاں کہانی بن کے دمکتا ہے، میں یہاں اس کے پیچھے چھپے محرکات کو نہیں چھیڑوں گی، میں بات کروں گی اس عشق کی جس میں سجدے میں سر کٹا دیا محمد ﷺ کے نواسے نے، معاملہ سیاسی تھا یا مذہبی اس سے قطع نظر، بات تھی حکم کی اور عشق کی۔
ایک روایت کے مطابق آپﷺ جانتے تھے اپنے نواسوں کا مستقبل، اس کے باوجود انہوں نے اس قربانی کو اسلام کی عشق کی اور حق کی سربلندی کے لئے پیش کردیا۔ یہ عشق ہی تھا جو حسینؓ کو واپس پلٹنے سے روکے رہا اور آپؓ نے باطل کے سامنے سر جھکانے اور پلٹ
جانے کے بجائے سر کٹا دیا۔ ساتھ ہی اپنی آل کی بھی قربانی بارگاہ الہیٰ و عشق میں پیش کردی۔ مولانا محمد علی جوہر کہتے ہیں۔۔۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
آج کے وقت کو دیکھا جائے تو قربانی کی اس مثال کا اثر ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے کے دل پر پڑا، بڑے بڑے مفکر ہوں یا فلسفی کربلا کے واقعے کو سمجھنے میں حیران رہ جاتے ہیں۔کیا کوئی شہزادہ حق کے لئے،محض رب کے لئے ایسے اپنے آل کی قربانی پیش کرسکتا ہے؟؟۔
یہ وہی سلسلہ ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی پیش کرکے شروع کیا تھا۔ اپنے جد امجد کے سلسلے کو آپﷺ نے ایسے بڑھایا جیسے درود پاک میں بیان کیا گیا ہے۔آج اسلام اس قربانی پر فخر کرتا ہے۔ اگر ایک زمانہ سوگ مناتا ہے اس شہادت پر تو آدھی دنیا فخر کتی ہے اس شجاعت پر جو کربلا کے پیاسوں نے اپنے لہو سے پیش کی۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے’ جب جسم موت کے لئے ہے تو اللہ کی راہ میں شہید ہونا سب سے بہتر ہے۔ یعنی راہ عشق میں شہادت کو سب سے اعلیٰ مقام دے کر اپنی ذات کو راہ خدا میں پیش کرچکے تھے۔اس کے بعد اپنے نانا نبی پاک ﷺ کی طرح حق اور انصاف کا پیکر بن کے علم اور ادب کا ایک باب مکمل کرگئے۔
آپؓ کی ذات انصاف کا عملی نمونہ تھی آپ فرمایا کرتے ظالم کے ساتھ رہنا بذات خود ایک جرم ہے اور یہی سوچ واقعہ کربلا کی بنیاد بنی ظلم
کے آگے سر نہ جھکا کے سر کٹوا کے پوری دنیا کے لئے ایک مقصد بنا گئے اور آج سب ہی اس جراٴت کی مثال دیتے ہیں اور تا قیامت جب ہمت اور بہادری و عشق و جنوں کا نام لیا جائے گا یا اس پر حق گو مقالہ لکھیں گے تو ایک روشن نام ابتدا ناموں میں حسینؓ کا بھی آئے گا۔ بقول شاعر
کیا صرف مسلمانوں کے پیارے ہیں حسینؓ؟
چرخے نوائے بشر کے ستارے ہیں حسینؓ
انساں کو بیدار تو ہولینے دو