اقوام متحدہ 1954سے ہر سال 20 نومبر کو بچوں کے عالمی دن کے طور پر مناتا ہے اس حوالے سے آج دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔
نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق غذائی قلت کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں 48 فیصد 5 سال سے کم عمر بچے پست قامت جبکہ 17 فیصد سے زائد وزن میں کمی کا شکار ہیں خیبر پختونخوا میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق صوبے کا ہر دوسرا بچہ غذائی قلت کا شکار ہے غذائی قلت کی بڑی وجہ غربت نہیں بلکہ والدین کی عدم توجہی ہے ایک اور سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں پندرہ لاکھ بچے جنکی عمریں پانچ سے سولہ سال ہے وہ تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں وہ سکول نہیں جارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں42 لاکھ بچے یتیم ہیں جن کی عمریں 17 سال سے کم ہیں اوران میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں صحت اور خورا ک ٗتعلیم وتربیت کی مناسب سہولیا ت میسر نہیں گزشتہ چند سالوں کے دوران خانہ جنگی کی وجہ سے یتیم بچوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جنکا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں یتیم بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن اس حوالے سے صحیح ڈیٹا میسر نہیں اس وقت صوبے میں ایک سرکاری سطح پر سکولز کے علاوہ بیت المال ٗآغوش سنٹر اور امہ ویلفیئرٹرسٹ یتیم بچوں کی بہترین کفالت کررہا ہے لیکن اب بھی ہزاروں یتیم بچے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور انکا کوئی پرسان حال نہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ناقص پینے کے پانی کے استعمال سے پاکستان میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے ڈھائی لاکھ بچے بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ایک سروے رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں ہر ہزار بچوں میں 54 ایک ماہ کی عمر سے قبل جبکہ 73 بچے ایک سال کی عمر کوپہنچنے سے قبل فوت ہو جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ غذائی قلت ہے صوبے کے 27 فیصد بچے پیدائش سے قبل ہی غذائی قلت کا اس لیے شکار ہوتے ہیں کہ مائیں مناسب خوراک نہیں لیتیںکہ پورے پاکستان میں 66 لاکھ بچے پینے کے صاف پانی جبکہ 60 لاکھ بچے صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ہر سال 53 ہزار بچے ہیضے میں مبتلا ہو کر فوت ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے 60 فی صد بچے چھ ماہ تک ماں کے دودھ سے محروم رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مختلف قسم کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے کے مطابق اگر یہ تناسب 15 فیصد سے تجاوز کرجائے تو ملک میں ایمرجنسی بنیادوں پر کام کیا جائے۔صورتحال یہی رہی تو آئندہ چند سال میں پست قامت اور وزن میں کمی کے شکاربچوں میں اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ناقص غذائیت بچوں میں شرح اموات کو کم کرنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے نیوٹریشن کے حوالے سے قوانین کی موجودگی کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے حالات روز بروز ابتری کی طرف جارہے ہیں اس وقت ملک بھر میں خطرناک حد تک بچے وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں جس کیوجہ سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگے، آلودہ پانی سے صوبے میں بچوں میں مختلف بیماریاں پھیلنے لگی ہے۔ نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق 2000 میں وٹامن اے کی کمی کے شکار بچوں کی تعداد 08.0 فیصد سے بڑھ کر 2011 میں 20.0 فیصد تک پہنچ گئی۔ پاکستان میں بھی بچوں کا عالمی دن کے موقع پر عوام میں شعور و بیداری پیدا کی جا ئے۔