لاہور (ویب ڈیسک) ہمارے ملک میں لڑکیاں شادی کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں۔ یہ شادی کو محض آئوٹنگ‘ نیند پوری کرنے اور بچے پالنے تک محدود کر دیتی ہیں۔ یہ سمجھتی ہیں ان کی زندگی کے دو حصے ہیں‘ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد۔ یہ دونوں کا آپس میں تعلق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتیں۔نامور نوجوان کالم نگار عمار چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ شادی سے قبل یہ والدین اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرتی ہیں اور شادی کے بعد شوہر اور سسرال کی مرضی کی۔ وہ خود کیا تھیں‘ کیا ہیں اور کیا کر سکتی ہیں‘ یہ سوال ان کے لئے بے معنی ہوتے ہیں۔ وہ اچھے سے اچھا رشتہ حاصل کرنے کو ہی زندگی کا اصل مقصد سمجھتی ہیں۔ اس کے لئے وہ میڈیکل جیسی مشکل ترین تعلیم حاصل کرتی ہیں‘ وہ انسانیت کی خدمت کا حلف اٹھاتی ہیں لیکن یہ حلف صرف نکاح کے دن تک ان کا ساتھ دیتا ہے۔ جیسے ہی نکاح اور رخصتی ہوتی ہے وہ اپنا گائون اور اپنا سٹیتھو سکوپ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہیں اور شوہر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پیرس کی شامیں تلاش کرنے نکل جاتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں‘ ان کی تعلیم کا مقصد پورا ہو گیا‘ لہٰذا اب باقی زندگی صرف عیش و آرام ہی ہونا چاہیے۔ وہ شادی کو ماضی کے غموں اور دکھوں سے نجات کا ذریعہ سمجھتی ہیں‘ اسی لئے لڑکی رخصتی کے وقت آخری مرتبہ روتی ہے جبکہ مرد ساری عمر روتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شادی سے قبل کالجوں میں لڑکیوں کی تان ایک دوسرے سے یہ پوچھتے ہوئے ٹوٹتی ہے‘ بھلا بتائو!اچھے خاندان کا امیر رشتہ حاصل کرنے کے لئے کس مضمون میں ماسٹرز کیا جائے؟ شادی کے بعد دوسرا اہم کام جو شوہر کو بھی پسند ہوتا ہے وہ اچھے کھانے کھانا ہے۔ شہر کا کوئی ریسٹورنٹ ایسا نہیں ہوتا جسے معاف کیا جاتا ہو۔ رات گئے ڈنرز‘ بے وجہ آئوٹنگ اور طویل نیند کا نتیجہ وزن میں اچانک اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس دوران ایک دو بچے پیدا ہو جائیں تو پھر زندگی کے دو ہی مقصد باقی رہ جاتے ہیں‘ بچوں کو پالنا اور ڈائٹنگ کرنا۔ یہ دو کام کرتے کرتے باقی زندگی بھی گزر جاتی ہے‘ حتیٰ کہ بچوں کی شادیوں کا وقت آ جاتا ہے اور ان کا بھی ویسا ہی وہی گھن چکر شروع ہو جاتا ہے۔ مہوش کی کہانی البتہ مختلف ہے۔ مہوش سہیل واہ کینٹ کی رہائشی ہے۔ اس نے 2016ء میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا۔ 2017ء میں اس کی شادی ہو گئی۔ اسے معلوم ہوا پنجاب آئی ٹی بورڈ نے فری لانسنگ ای روزگار پروگرام شروع کیا ہے جس کے ذریعے تربیت لے کر گھر بیٹھے آن لائن آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مہوش کی شادی خوش پوش فیملی میں ہوئی تھی۔ اسے نوکری یا آمدنی کی خاص ضرورت نہ تھی‘ لیکن وہ وقت ضائع کرنے کے حق میں نہ تھی۔ اس نے ٹیسٹ اور انٹرویو پاس کر لیاجس کے بعد اسے کام سیٹس انسٹیٹیوٹ واہ کینٹ میں سہ ماہی ای روزگار تربیتی پروگرام میں داخلہ مل گیا۔ اس سے قبل اسے کمپیوٹر کا بہت زیادہ نالج نہ تھا؛ تاہم یونیورسٹی میں پاور پوائنٹ وغیرہ پر اسائنمنٹ وغیرہ بنا چکی تھی۔ اس نے غیر تکنیکی پروگرام میں گرافکس ڈیزائننگ کا شعبہ منتخب کیا اور فوٹو شاپ اور ایڈوب السٹریٹر سیکھنا شروع کر دیا۔ انسٹرکٹر نے طلبا و طالبات کو پہلے ہفتے فری لانسنگ کے بارے میں مختلف معلومات دیں‘ مثلاً یہ کہ انٹرنیٹ سے پیسے کس طرح کمائے جا سکتے ہیں‘ اپنا پروفائل کیسے بنانا ہے‘ آرڈر کیسے لینا ہے‘ کلائنٹ سے کمیونیکیشن میں کن باتوں کا خیال رکھنا ہے‘ آرڈر کتنے وقت میں مکمل کرنا ہے‘ کم از کم معیار کیسا رکھنا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ مہوش نے فائیور پر اپنا اکائونٹ بنایا جس میں اس نے لکھا کہ وہ کس طرح مختلف سٹیکرز وغیرہ ڈیزائن کر سکتی ہے اور بروقت اور معیاری کام فراہم کر سکتی ہے۔ مہوش نے انتہائی دلجمعی سے تربیت حاصل کی جس کی وجہ سے اسے چند روز کے اندر ہی پندرہ ڈالر کا آرڈر مل گیا۔ اس نے سب کو حیران کر دیا کہ جب اس نے کلائنٹ کو ایک دن کا وقت دیا‘ لیکن مطلوبہ کام تین چار گھنٹوں میں مکمل کر کے بھیج دیا۔ یہ صرف پندرہ ڈالر یا دو ہزار روپے نہیں تھے‘ یہ دراصل اعتماد کی سیڑھی کا وہ پہلاقدم یا کامیابی کا نقطہ آغاز تھا‘ جس نے مہوش کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد اس نے ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک کلائنٹ کو چار گھنٹے کے اندر اندر چند سٹیکرز کے ڈیزائن درکار تھے۔ چونکہ یہ ارجنٹ کام تھا اس لئے اس نے دو سو اسی ڈالر آفر کئے تھے۔ مہوش نے فوراً وہ جاب قبول کر لی اور صرف دو گھنٹے میں اسے مطلوبہ ڈیزائن بنا کر بھیج دیا۔ کلائنٹ کو معیاری اور مطلوبہ ڈیزائن وقت پر مل گیا تو اس نے فوراً دو سو اسی ڈالر ادا کر دئیے۔ یوں مہوش نے صرف دو گھنٹے میں چھتیس ہزار روپے کما لئے۔ یہ مہوش کے لئے دوسرا اہم موڑ تھا کیونکہ اس سے قبل وہ چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کر رہی تھی۔ اس کے بعد مہوش نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک سال کے قلیل عرصے میں اس نے چار سو سے زائد پراجیکٹس مکمل کئے اور آٹھ ہزار ڈالر کما لئے جو گیارہ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سارے کام اس نے مردان میں کئے کیونکہ اس کی شادی مردان میں ہوئی تھی۔ صرف ای روزگار کی تربیت لینے کے لئے وہ تین ماہ کے لئے والدین کے پاس واہ کینٹ مقیم رہی۔اس کے بعد واپس مردان چلی گئی۔ فی الوقت وہ ایک چھوٹی سی کمپنی قائم کرنے جا رہی ہے جس میں وہ مزید لڑکیوں کو ساتھ ملا کر انٹرنیٹ پر کام کرے گی اور یوں کئی خاندانوں کو گھر بیٹھے باعزت روزگار مل جائے گا۔ مہوش سہیل کی زندگی سے ہمیں تین سبق ملتے ہیں‘ ایک‘ لڑکیوں کو شادی کے بعد گھر کا فرنیچر بن کر ضائع نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ وہ چاہیں تو امورِ خانہ داری کے ساتھ گھر بیٹھ کر محفوظ انداز میں آمدنی بھی حاصل کر سکتی ہیں‘ اور اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگنے سے بچا سکتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ لڑکیاں لڑکوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں‘ بالخصوص ڈیزائننگ کے شعبے میں وہ زیاہ بہتر کام کر سکتی ہیں کیونکہ اس میں مختلف آئیڈیاز پر مبنی نت نئے ڈیزائن بنانا ہوتے ہیں اور لڑکیاں اس حوالے سے بہتر انداز میں سوچتی ہیں کیونکہ وہ اپنا دماغ لڑکوں کی نسبت فضولیات میں کم ضائع کرتی ہیں اور تیسرا یہ کہ وہ فالتو وقت ساس بہو اور نند کے جھگڑوں اور سہیلیوں سے غیبتوں میں ضائع کرنے سے بچ گئی۔ وہ چھ سات گھنٹے جو وہ روزانہ فری لانسنگ کو دیتی ہے۔ یہ وقت وہ ڈرامے دیکھنے اور گھر کے جھگڑوں میں گزارتی تو اس کی اپنی اور شوہر کی زندگی مشکل اور پیچیدہ ہو جاتی۔ چند روز قبل میں نے ایک بیوہ خاتون کا ایف ایم ریڈیو پر انٹرویو سنا‘جو تین سال قبل بیوہ ہو گئی تھی۔ اس کے تین بچے تھے‘ جنہیں غربت کی وجہ سے اسے اچھے سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں ڈالنا پڑا۔ انہیں پالنے کی مکمل ذمہ داری اس کے سر تھی۔ اسے کسی نے فری لانسنگ کا بتایا تو اس نے ای روزگار میں داخلہ لے لیا اور صرف دو سال محنت کرنے کے بعد وہ آج اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ گھر بیٹھ کر فری لانسنگ سے ڈیڑھ دو لاکھ ماہانہ کما رہی ہے۔ گھر کا خرچ بھی چلا رہی ہے اور بچے بھی دوبارہ اچھے سکولوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ای روزگار پروگرام لوگوں کی زندگیاں تبدیل کرنے میں شاندار کردار ادا کر رہا ہے اور معذور افراد ہوں‘ بیروزگار نوجوان ہوں‘ شادی شدہ‘ غیر شادی شدہ یا بیوہ خواتین ہوں‘ اگر یہ لوگ ماسٹرز کر چکے ہیں اور ان کی عمر پینتیس برس سے کم ہے تو وہ اس پروگرام سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ یہ پروگرام ملکی سطح پر شروع ہو جائے تو دیگر صوبوں کے کروڑوں عوام بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا ایک کروڑ نوکریاں دینے کا ٹاسک ای روزگار جیسے پروگراموں کے ذریعے دنوں میں پورا ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف بے روزگاری دُور ہو سکتی ہے بلکہ وہ لاکھوں بے روزگار نوجوان جو نشہ اور آوارگی کے ذریعے اپنی زندگی عذاب بنا رہے ہیں اور وہ خواتین جو شادی کے بعد سارا سارا دن سروں پر دوپٹے باندھے ہائے ہائے کرتی رہتی ہیں‘ یہ سب گھر میں چند گھنٹے کام کرکے سینکڑوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ یہ ای روزگار اور فری لانسنگ کے ذریعے اپنی زندگی تک بدل سکتے ہیں۔