counter easy hit

روزمرہ کی ادویات ! ہومیوپیتھی و حکمت

Medicine

Medicine

تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا
آج کل پنجاب بھر میں عطائیت کے فلاف مہم جاری ہے۔ انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ۔ہر طرف ایک ہی آواز ہے کہ ادویات بھی دیگر روزمرہ اشیاء کی طرح ملاوٹ شدہ ہیں۔ جیسا کہ پورے پاکستان میں سرخ مرچوں میں لکٹری کا بھورا،دودھ میں کیمیکل، دھی میں چاولوں کا آٹا وغیرہ وغیرہ عطائی معالج کا مطلب کوئی میڈیکل تعلیم نہ ہونا یعنی کسی ڈپلومہ ڈگری یا سندکا نہ ہونا۔جیسا کہ تمام پرائیویٹ ہسپتالوں۔کلینکوں اور شفاء خانوں میں پر،مرہم ،پٹی ،ٹیکہ ،ڈرپس اور زخموں پر ٹانکیں لگانے والے ہوتے ہیں ۔اور یہ لوگ 98%نان کوالیفائڈز یعنی عطائی ہوتے ہیں مگر آج تک ان کے خلاف نہ کوئی چلان ہوا ہے اور نہ کبھی مستقبل میں ہوگا کیونکہ یہ شفاء خانے ا ور ہسپتال عموماً ماہر معالج (اسپیشلسٹ) ڈی ایچ او،ایم ایس،ڈی ایم ایس یا ڈائریکٹر ہیلتھ الغرض محکمہ صحت کے افسران کے ذاتی ملکیت ہوتے ہیں یا پھر ایسے لوگوں کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے۔

بے شک ایسے ہسپتالوں کو محکمہ صحت کے افسران یا سینئر ڈاکٹرزکے زیر اہتمام چلایا جاتا ہیں۔مگر کبھی کسی مریض کو ڈرپس ٹیکہ یا مرہم پٹی کسی ڈاکٹر یا کسی کوالیفائڈ ڈسپنسر نے نہیں کی کیونکہ ڈاکٹر صاحب نگران ہے اور کوالیفائڈ ڈسپنسر ز پرائیویٹ شفاء خانوں میں جاب نہیں کرتے وہ زیادہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جسکی وجہ سے نان کوالیفائڈپرسن (عطائی) کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی طرح جب ان لوگوں کو سالوں کے حساب سے تجربہ ہو جاتا ہے تو یہ فطرتی طور پر زیادہ معاوضہ طلب کرتے ہیں ۔چند ایک کو معقول معاوضہ مل جاتا ہیں مگر اکثریت کو خاطر خواہ تنخواہ نہ ملنے سے۔۔ اور محکمہ صحت کے لوگوں سے سلام دعا اور رشوت سے اپنا دواخانہ بنا کر انسانی جانوں پر نت نئے تجربات شروع ہو جاتے ہیں۔محکمہ صحت میں تعلقات کی وجہ سے کوئی مائی کا لعل ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔

ایسے دیہات جو شہروں سے دور ہونے کی وجہ سے ایمرجنسی کی صورت میںفرسٹ ایڈ کے متلاشی ہوتے ہوتے ہیں ایسے میں اگر ان کو فرسٹ ایڈ مل جائے تو مریض بے موت مرنے سے بچ سکتا ہے۔اور ایسا ہومیوپیتھس اور حکماء حضرات بخوبی کر سکتے ہیں ۔افسوس ! حکومت عطائیوں سے چھٹکارا دلانے کی بے جائے حکماء اور ہومیوپیتھس کے چلان پر چلان کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول تو ڈال ہی رہی ہیں ساتھ ساتھ ان قدرتی علاجوں سے عوام کو استفادہ حاصل کرنے کی بجائے بدظن بھی کر رہی ہے آخرمحکمہ صحت کے ڈرگ انسپیکٹرز جن وجوہات کو جواز بنا کر بے چارے ہومیوپیتھس اور حکماء حضرات کو مسیحا سے مجرم بناتے ہیں ان میں سہرفرست۔۔۔

وہ روز مرہ کی ادویات جو چائے پان سگریٹ کے کھوکھے اور ہر جنرل اسٹور بغیر کسی روک ٹوک کے رکھ سکتے ہیں مثلاً ڈسپرین ،پیراسٹامول ،سرنج ،روئی، پٹی، سپرٹ پایئوڈین وغیرہ وغیرہ! مگر ہومیوپیتھس اور حکماء نہیں رکھ سکتے یہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر بلڈ پریشر ،تھرمامیٹر اور شوگر وغیرہ چیک کرنے والے آلات کو اگر ہومیوپیتھس اور حکماء حضرات اپنے دواخانوں میں رکھتے ہیں تو مجرم ہیں حالانکہ یہ وہ اشیاء ہیں جنکو پوری دنیامیں لوگ اپنی ضرورت کے تحت گھروں میںرکھتے ہیں ۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تمام ممالک روز مرہ کی عام ادویات یا فرسٹ ایڈ مرہم پٹی وغیرہ بلا روک ٹوک رکھی اور استعمال کی جاتی ہیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ یہ روز مرہ کی ادویات عام جنرل سٹورز بیکریز اور چائے پان کے کھوکھوں سے خرید کر گھروں مین رکھتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت کام آسکیں مگرپاکستان کے صوبہ پنجاب میںخاص طور پر ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء نہیں نہ رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی قانونی طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

حالانکہ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز ،حکماء باقاعدہ طور پر کوالیفائڈ اور رجسٹرڈ معالج ہیں جنکو نشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی حکومت پاکستان اسی طرح حکماء کو نشنل کونسل برائے طب حکومت پاکستان چارسالہ کورس پاس کرنے پر ڈپلومہ اور پھر رجسٹریشن جاری کرتیں ہیں۔ دوران کورس بنیادی فزکس، کمیسٹری، بیالوجی،اناٹومی ،فزیالوجی، سائیکالوجی، پیتھالوجی، مڈوائفری، گائیناکالوجی، فرانسک میڈیسن۔ مائینرسرجری، کیس ٹیکینگ اینڈ ریپرٹرائزیشن، فلاسفی،اور میٹریا میڈیکا وغیرہ وغیرہ پاس کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ پھر حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اپنی پریکٹس کرتے ہیں ۔جن سے مخلوق خدا بغیر کیسی سائیڈ افیکٹس کے فیضیاب ہوتے ہیں۔در حقیقت یہ اپنے اپنے مورچوں میں رہتے ہوئے وطن عزیز سے بیمار اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے۔ اتنا سلیبس پاس کرنیکے بعد بھی کوئی ہومیوپیتھک ڈاکٹر یا حکیم اگر عام روز مرہ کی ادویات رکھتا ہے تو عطائیت کا لیبل لگا کر چلان کر دیا جاتا ہے مگر محکمہ صحت کی چھتری کے نیچے محکمہ صحت کا ڈرائیور، محکمہ صحت کا چوکیدار،محکمہ صحت کا خاکروب یا کوئی بھی نتھو پتھو ہو اگر وہ محکمہ صحت کے سائے میں پریکٹس کرتا ہے تو وہ عطائی کیوں نہیں ؟؟ جیسا آج کل ہر لیڈی ہیلتھ ورکر کو پیرا سٹامول،بخار، درد منصوبہ بندی۔ پیٹ کے کیڑوں اور طاقت وغیرہ کی ادویات استعمال کرواتی پھرتیں ہیں۔۔۔ کیا یہ عطائیت ہے۔؟ْ یا عطائیت نہیں؟؟

آخر میں بس اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں!ہومیو پیتھک ڈاکٹرز اور حکماء سے حکومت انگریزی طریقہ علاج کے دباوپر سوتیلی ماں والہ سلوک کر رہی ہے حکومت محکمہ صحت کے ٹھیکداروں کے اشاروں پر ناچ رہی ہے ۔محکمہ صحت کے اعلیٰ احکام بخوبی جانتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی طرح پاکستان مییں بھی دن بدن عوام میں قدرتی طریقہ علاج(ہومیوپیتھی ، حکمت ) کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے ہومیو پیتھک ڈاکٹرز اور حکماء کو بدنام کرنے کے لئے منفی پراپوگنڈا اور تنگ کرنے کے بہانے تراشے جارہے ہیں دوسری طرف۔۔۔۔ اپنے ہی گراتے یں نشے من پہ بجلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نشنل کونسل برائے طب اور نشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی کی ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء کے ساتھ ظلم پر خاموشی کی وجہ ممبران کونسل ہیں کیونکہ اگر روز مرہ کی ادویات عام ہومیوپتھس یا حکیموں سے مل جائے تو ۔۔جو ممبران کونسل کی ادویات ساز کمپنیاں ہیں وہ دولت کی تجوریاںکیسے بھریں؟؟؟ مالی فوائد کی خاطر یہ ہومیوپیتھک اور حکمت کے نام نہاد ٹھیکیدار خاموش ہیں۔ جبکہ عوام کو ریلیف نہ ملا تو پھر وہ دن دور نہیں جب پاکستانیوں کو آٹا،چینی، گھی، گیس ، پٹرول کی طرح عام روزمرہ ادویات کے لئے لائینوں میں لگنا پڑیگا کیونکہ شہروں سے دور دراز دیہاتوںمیں میڈیکل سٹور کا قیام ممکن نہیں اور یہ قدرتی طریقہ علاج(ہومیوپیتھک اور حکمت ) سے بغض درحقیقت عوام سے بغض ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے ۔قدرتی طریقہ علاج (ہومیوپیتھی،حکمت) سے یورپ اور امریکہ کی طرح مکمل اسفادہ حاصل کیا جائے اورروز مرہ کی عام ادویات کی اجازت کے ساتھ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء کو فرسٹ ایڈ کی بنیادی ٹرینگ دے کر ان سے ملک و قوم کی خدمات حاصل کی جائیں

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا