لاہور(ویب ڈیسک)اسلام، قومیت، حب الوطنی کے جذبات اور قومی ترانے کا تو بالکل بھی معلوم نہیں، مگر جن چیزوں کے بارے میں بھرپور یقین ہے کہ یہ پاکستانیوں کو اک دوسرے کے ساتھ جوڑتی ہیں، ان میں سرِ فہرست ”شاپڑ بیگ“ سے محبت، اشیاء کو استعمال کر کے انہیں اک شانِ بےنیازی سے باہر پھینک ڈالنے کی عادت، تربت سے لے کر خنجراب تک مل جانے والی بدذائقہ چکن کڑاہی، پانی کا بدعقلی سے ضیاع، اور بلاشبہ ”جمہوریت نے ہمیں کیا دیا ہے، لہذا جمہوریت پر لعنت، “ شامل ہیں۔مثلا دیکھیے کہ جنوری 28، 2018 کو پاکستان کی سینیٹ میں اک سوال کے جواب میں سینٹر مشاہد اللہ خان صاحب نے بتایا کہ (بقول استاد صوفی ہارون الرشید) کے دنیا کی تیسری ذہن ترین قوم ہر سال تقریباً پچپن ارب، جی ہاں، پچپن ارب شاپنگ بیگز استعمال کرتی ہے۔ آئیے کہ اب ذرا اسی ہندسے کو لکھ کر دیکھتے ہیں: 55000000000۔ اس ہندسے کو آئیے کہ پاکستان کی مجموعی آبادی، یعنی اکیس کروڑ، پر تقسیم کرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہر پاکستانی پورے سال میں تقریبا 262 شاپنگ بیگز استعمال کرتا ہے۔اس ذہین قوم نے یہاں ہی بریک نہیں لگائی، بلکہ سینیٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ پلاسٹک بیگز کے استعمال میں ہر سال تقریبا 15٪ کا اضافہ بھی ہو رہا ہے، یعنی پچپن ارب شاپنگ بیگز استعمال کرنے والے ”صفائی نصف ایمان ہے“ کے داعی، سنہ 2018۔ 19 میں تقریبا سوا آٹھ ارب شاپنگ بیگز اضافی استعمال کریں گے اور یہ تعداد کوئی چونسٹھ ارب کے قریب ہوگی۔ ماشاءاللہ! پاکستان میں پلاسٹک کی صنعت سے تقریبا ڈھائی لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، اور اس صنعت کو چلانے والوں کی اک خوفناک اکثریت معیاری گھڑے ہوئے پاکستانیوں کی ہے جو حکومت کی پچھلے تیرہ برسوں میں کی جانے والی اک مسلسل کوشش کے رستے میں رکاوٹ ہیں کہ شاپنگ بیگز کو بائیو ڈی۔ گریڈ ایبل کیا جائے تاکہ اک شاپنگ بیگ، جو تقریبا بیس برس میں ختم ہو گا، وہ تین سے پانچ ماہ کی مدت میں ختم ہو جائے۔ مگر دھڑا دھڑ شاپنگ بیگ بناتے ہوئے، کوئی نماز نہ چھوڑنے والا، ہر روز چکن کڑاہی کھا کر بعد میں تیز میٹھے کی چائے پی کر دانتوں میں خلال کرتے ہوئے ڈکار مارنے والا، عمرہ و حج کا ذکر سن کر رقت طاری کرنے اور میلاد وغیرہ کی مذہبی رسومات میں کھلے دل سے چندہ دینے والا چھوٹے پیمانے کا صنعتکار ہے کہ ہلنے، جلنے اور ماننے سے انکاری ہے۔سینیٹر موصوف نے یہ بھی کہا کہ پلاسٹک بنانے والے، آب و ہوا سے متعلق حکومتی اقدامات کے شدید مخالف ہیں اور اک مسلسل تعاون نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ذرا ریاست کی مضبوطی تو ”چیک“ کیجیے کہ ہواؤں میں اٹھکیلیاں کرنے، سائیکل سواروں اور موٹر سائیکل سواروں کے مونہوں کو آندھی میں آن چمٹ جانے والے آوارہ و بدقماش ”شاپڑوں“ پر اک مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ کوئی ہماری ریاست کو کینیا کی مثال ہی یاد کرا دے، جہاں کی ریاست نے یہ فیصلہ کر دیا اور اس پر زور و شور سے عمل بھی جاری ہے۔ مگر لعنت اس لیے بھیجیے کہ ہم چونکہ اک اسلامی ریاست ہیں، لہذا، کسی غیر اسلامی ریاست سے سیکھنے کا کفر و گناہ کیونکر سرزد ہو، ہیں جی؟اور ہاں، یہ بھی جان کر سر دُھنیئے کہ پاکستان میں تقریبا 90٪ پلاسٹک کی مصنوعات، پلاسٹک کے دانوں سے نہیں بنتیں، بلکہ یہ پلاسٹک کے اس کوڑے کرکٹ سے بنتی ہیں جو ہمارے اکثریتی مسلمان پلاسٹک صنعتکار، اک دوسرے مسلم بھائی ملک، متحدہ عرب امارات سے امپورٹ کرتے ہیں۔ یہ مگر مکمل سچ نہیں۔ مکمل سچ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں پلاسٹک کا یہ کاٹھ کباڑ امریکہ، کینیڈا، جرمنی، جاپان اور چین سے آتا ہے جو پلاسٹک کے دانوں سے تقریبا چار سو فیصدی سستا پڑتا ہے۔چونکہ یہ سستا پڑتا ہے تو لہذا اصول و ضابطے کی بات کو ڈالیے کوڑے کی ٹوکری میں اور اگر کوئی تھوڑا بہت احساسِ جرم باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا صنعتکار مذہب کے نام پر ادھر اُدھر کوئی چندہ دے کر نیکیاں کما لیتا ہے اور گناہ کو اپنے تئیں بہا دیتا ہے۔ جہاد کی بتدریج متروک ہوتی ہوئی ”صنعت“ کے بعد، اب چونکہ بریلوی دوست ”ختم نبوت“ کے نام پر میدان میں ہیں تو ثواب کمانے کا کوئی نہ کوئی سلسلہ لگا ہی رہے گا تو پلاسٹک والے منا بھائیو: لگے رہو، بسم اللہ! ہاں مگر ”شاپڑ بیگ“ کو اگلی مرتبہ استعمال کرتے وقت، آپ یہ ضرور سوچئے گا کہ پلاسٹک کی جس تھیلی میں آپ دہی، دودھ، چنے وغیرہ لے کر جارہے ہیں ممکن ہے کہ پلاسٹک کا وہ حصہ کسی مریض کے پیپ زدہ زخم سے چلا ہو، یا شاید کسی کنڈوم کا حصہ رہا ہو اور اب آپ اس میں اپنے کھانے کے لیے کچھ لیے جا رہے ہیں۔ سوچئیے گا؟پسِ تحریر: میرے محبوب پاکستانیوں کو آپس میں جوڑنے والی دوسری عادات صالحہ جن میں پانی کا بدعقلی سے ضیاع اور کوڑا پھیلانے کا شوق سرِفہرست ہے، پر اگلی تحاریر میں بات ہو گی۔ تب تک آپ ”شاپڑ بیگ“ کے بارے میں سوچیں، اور کنڈوم کے اس حصے کے بارے میں بھی جو شاید دوست ملک، چین سے چلا ہو، اور اب آپ کے چنوں سے بھرے بیگ میں وہ دائیں جانب کے نچلے چنے کا بوسہ لے رہا ہو، اور آپ اسے بہت محبت سے مسکرا کر دیکھ رہے ہوں، اور دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں: پاک چین دوستی، زندہ باد۔