تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
بُرائی رائی کے دانے جتنی ہویا پہاڑ کے برابرہی کیوں نہ ہو، برائی برائی ہوتی ہے،خواہ کوئی برائی کو صدیوں مخمل میں لپیٹ کررکھ دے اورپھراُسے اِس اُمیدپر نکالے کہ اَب یہ اچھائی میں تبدیل ہو چکی ہوگی تو ایساہرگزنہیں ہوسکتاہے کہ جیساسوچاویساہوجائے…. کیوںکہ بُرائی کا اپنا ایک پکااور اٹل رنگ ہے جو کبھی بھی اچھائی میں نہیں بدل سکتاہے یہ بات اِس لئے بھی حقیقت ہے کہ بُرائی اوراچھائی ایک دوسرے کی ضد ہیںاور ضد ہمیشہ قائم رہتی ہے ،اور اِسی طرح پہاڑ جتنی بُرائی پر دنیا کے سارے امیر ترین لوگ مل کر اپنی ساری دولت خرچ کردیںاور اِس پرسونا چڑھادیں پھر دنیا کوچیخ چیخ کر یہ بتاتے پھریں کہ آج اِنہوں نے اپنے اِس عمل سے پہاڑ کے برابر بُرائی کو درست کردیاہے اور بُرائی کو اچھائی میں بدل دیاہے تو ایساہونامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔
یہاں ہمیں اِس حوالے سے حضرت شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت یادآگئی ہم چاہتے ہیں کہ اپنے پڑھنے والوں کے لئے اِسے بیان کردیں حضرت بیان کرتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ مشہوربادشاہ نوشیرواں عادل شکارگاہ میں تھا،شکارکئے ہوئے گوشت سے مزیدارکباب تیارکئے جارہے تھے،جن کی خوشبوسے شکارگاہ مہک رہاتھاکہ نمک ختم ہوگیا،شاہی باورچی نے ایک غلام سے کہاکہ قریبی بستی سے نمک لے آئے،اتفاق سے نوشیرواں نے یہ بات سُن لی اور غلام سے کہاکہ نمک کی قیمت اداکئے بغیرہرگزنہیں لانا….نوشیرواں کی اِس حکمیہ ہدایت پرغلام نے انتہائی احترام سے زمینِ ادب چومتے ہوئے عرض کیاکہ” عالم پناہ چٹکی بھرنمک کی کوئی بات نہیں،کسی سے مفت ہی لے لوں گاکیا فرق پڑے گا….؟؟“ حضرت شیخ سعدی ؒ اپنی حکایت میں کہتے ہیں کہ غلام کی اِس عرض کے جواب میں نوشیرواں عادل نے جو تاریخ ساز جملے اداکئے وہ کچھ یوں ہیں اِس نے کہاکہ”بہت بڑافرق پڑے گا،ابتداءمیں ہربُرائی معمولی دِکھائی دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی ہوجاتی ہے کہ اِسے مٹانامشکل ہوجاتاہے“نوشیرواں عادل کے اِس جواب کو حضرت شیخ سعدی ؒ نے اپنی حکایت میں عالمِ انسانیت کے جو درس دیاہے وہ یوں ہے کہ ”کسی بھی پہلی بُرائی کو معمولی خیال نہیں کرناچاہئے،معمولی بُرائی ہی زمانوں ، تہذیبوں ، ریاستوںاور معاشروں میں بڑھ اور پھیل کرا تنی غیرمعمولی بُرائی بن جاتی ہے کہ اُسے مٹانامشکل ہوجاتاہے جس سے تہذیبیںاورزمانے تباہ و بربادہوجاتے ہیں۔
آج اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ جب سے دنیاقائم ہوئی ہے ہمیشہ سے ہی یہ کلیہ اور قانون رہاہے کہ کسی بھی بُرائی کو مصنوعی طورپر درست کرنادراصل اپنے آپ اور اِنسانیت کو دھوکہ دینے اور نقصان پہنچانے کے مترادف ہے،دنیاکی کوئی بھی بُرائی اُس وقت تک صحیح معنوں میں درست یا ٹھیک نہیں ہوسکتی ہے جب تک اُسے جڑسے ہی نہ ختم کردیاجائے اور جب اِس پر درست طریقے سے عمل کردیاجائے تو پھر اِس بات کا بھی اطمینان رکھاجائے کہ ہاں… اَب یہ بُرائی بلکل ہی جڑسے ختم ہوگئی ہے۔
مگر یہاں یہ سوالات بھی پیداہوتے ہیں کہ بُرائی پیداکیوں ہوتی ہے…؟اور اتنی جلدی اپنا اثرکیوں دکھاتی ہے ..؟تواِن سوالا ت کے جوابات ہر زمانے کے ہر معاشرے کے اہل علم ودانش نے یہ نکالاہے کہ پہلی بُرائی خواہ کسی بھی شکل میں( چھوٹی ہویابڑی) ہواِس کا ہر اِنسان میں پیداہوناایک فطری عمل ہے اور یہ اِنسان کی اپنی کسی نہ کسی منفی سوچ کی وجہ سے پیداہوتی ہے،اگر اِسے شروع ہی میں پنپنے اور پروان چڑھنے سے روک دیاجائے تو پھر کسی بھی اِنسان اور معاشرے میں دیگر بُرائیاں پیداہونے سے رُک جاتی ہیں ، اِس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہر اِنسان اپنے اندر مثبت اور تعمیری سوچ پیداکرے اور اپنے اخلاق کو اچھاکرے اور عالمِ اِنسانیت کی فلاح و بہبود کے خاطر خود کو متحرک رکھے آج کے اِنسان خاص طور پر اہل یورپ اِس جانب سنجیدگی سے توجہ دیں جس طرح یہ دیگر سانئسی اور دنیاوی معاملات پر توجہ دیتے ہیں تو کوئی حرج نہیں کہ آج بھی اِن کی طرف سے ساری دنیامیںپھیلی ہوئیں بے شمار اخلاقی اور معاشرتی بُرائیوں کو جڑ سے ختم کیاجاسکتاہے اور سب دنیاکے اِنسان مل کر ساری بُرائیوں کو ختم کرنے میں ایک دوسرے سے مددلے کر بڑی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
اِس کے ساتھ ہی اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اُمت مسلمہ کا یہ ایمان کامل ہے کہ ازل سے ابدتک کائنات کا خالق و مالک صرف اللہ رب العزت ہی ہے اور اِسی کے حکم سے ہرکام ہوتاہے یہ اگر نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتاہے یوں آج اُمتِ محمدیﷺ کے اِس ایمان افروز نقطے پر ہر زمانے کے ہر معاشرے کے ہر مذہب وملت سے تعلق رکھنے والی ہراِنسان اور عالم ِ انسانیت کوبھی متفق ہوجاناچاہئے کہ بیشک..!تمام کائناتوں، زمینوں، آسمانوں، چاروں سمتوں(یعنی کے تمام کائناتوں کے جتنے بھی مشرق، مغرب، شمال اورجنوب ہیں) ، الغرض کہ تمام چاند وستاروںاورسورج اور ہر ظاہر و باطن کا اصل خالق و مالک صرف اللہ رب العزت ہے جو ہر چیز پرقدرت رکھتاہے اور یہی ربِ کائنات اللہ رب العزت ہے جس نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو معبوث فرماکر عالمِ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ادیانِ کُل کے شہنشاہ” دینِ اسلام“ کی تکیمل بھی کردی ہے اور یوں رہتی دنیاتک روئے زمین پہ پیداہونے والے اِنسانوں پراپنا یہ عظیم رازبھی افشاں کردیاہے اَب جب تک دنیاقائم و دائم رہے گی ہر زمانے کے ہر معاشرے میں جتنے بھی اِنسان پیداہوتے رہیںگے وہ سب کے سب پیدائشی طور پر دین اسلام کی فطرت کے ساتھ خیراور بھلائی لئے ہوئے پیداہوں گے الحمدللہ…!!آج اُمت مسلمہ کے مسلمان گھر انوں میں پیداہونے والے بچے ( خواہ وہ لڑکے ہوں یالڑکی) فطری او رعملی طور پرمسلمان ہی پیداہوتے ہیں جو تاحیات بُرائی اور شرکے خلاف کمربستہ رہتے ہیں اورزندگی بھر خیرو بھلائی کا بول بالاکرتے ہیں اوراِس پر ہماراایمان اور یقین ہوناچاہئے کہ یہ قبرکی آغوش میں جانے کے بعد بھی ایک اللہ ، ایک رسول ﷺ اور دینِ اسلام کو ماننے والے ہی ثابت ہوتے ہیں اور اپنے اعمالِ صالح کی بنیادپر جنت الفردوس میں بلنددرجات پر فائز ہوتے ہیں۔
جبکہ آج میرے عظیم دینِ اسلام کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی ادیان موجودہیں اوراِن مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے یہاںجتنے بھی اِنسان پیداہوتے ہیں وہ اپنے والدین اور آباو ¿اجداد کے ہاتھوں مجبورہوکراُنہی کے مذاہب و روایات اور طورطریقوں کو اپنالیتے ہیںاور اِن طریقوں اور رسم رواج کو اپنی زندگی گزارنے کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور پھر جیسے جیسے یہ دنیاوی چکاچوندمیں پڑتے جاتے ہیں بسااوقات اِن میں سے بہت سوں کو دنیاوی چکاچوند اور اِن کی مدرپدرآزاد مذہبی روایات ورسومات اور دنیاوی حالات واقعات خیرکی راہ سے بھٹکادیتے ہیں، یوں یہ اپنے انجام سے بے خبربُرائی اور شرکی ایک ایسی منزل کی جانب چل پڑتے ہیں کہ جن سے یہ مرنے کے بعد بھی اپناپیچھانہیںچھوڑاپاتے ہیںیوں اِسی حالت میں یہ واصلِ جہنم ہوجاتے ہیں مرنے سے پہلے یہ لوگ جب تک دنیا میں زنددہ رہتے ہیںتو دنیاکے لئے بھی بوجھ بنے رہتے ہیں کیونکہ یہ اور اِن کی زندگیاں بُرائیوں کی ایسی گندگی نالیوں کی شکل اختیارکئے ہوتے ہیں۔
جن سے انگنت اخلاقی اور معاشرتی بُرائیوں کے جرااثیم پیدا ہوتے رہتے ہیں اور جن سے تعفن اُٹھتارہتاہے اور یہ ہر اخلاقی اور معاشرتی برائی کے آماجگاہ بن چکے ہوتے ہیں اِس طرح جہاں اِن جیسوں سے بہت سی اخلاقی اور معاشرتی بُرائیاں پھلتی پھولتی ہیں تووہیںساری دنیا اِن گندے اور ناپاک لوگوں کی وجہ سے کہیں قلم و قرطاس کی دہشت گردی توکہیں اسلحہ بارود کی دہشت گردی اورتو کہیں یہ شیطان صف اِنسان اسلام جیسے دنیا کے امن پسند دین میں نفرتوں اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکاتے ہیں یوںدنیامیں فسادات برپاہوجاتے ہیںجن سے آگ و خون کی ندیاں بہہ نکلتی ہیںیوںدنیا اِنسانیت سوز مظالم اور انارگی وقتل وغارت گری کی نظرہوکرگندگی اور غلاظت کا ڈھیڑبن جاتی ہے،جیساکہ آج یہ منظرپیش کررہی ہے اِس میں کوئی شک نہیںہے کہ دنیا کو بُرائی کی دلدل میںدھکیلنے والے دنیاکے دوسرے مذاہب کے انتہاپسندانہ عقائد رکھنے والے دہشت گرد ہیں جنہوں نے ایک طرف اپنی تواسلحہ بارودسے دہشت گردی جاری رکھی ہوئی ہے تو دوسری طرف یہ اور اِن کا سارامیڈیا قلم و قرطاس سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پوری طاقت سے منفی پروپیگنڈے میں مصروفِ عمل ہے اَب ایسے میںعالمِ اسلام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو لگام دینے کے لئے اپنی ایسی جامع حکمتِ عملی اختیارکرے کہ جلد اِن کا اور اِن کی پھیلائی ہوئی بُرائیوں کا قلع قمع ہوجائے۔
محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.co