سردیاں جو کسی گرم بستر میں آرام کر رہی تھیں لگتا ہے کسی نے ان کے بستر کا کوئی نقاب اور کونا ایسا الٹا ہے کہ سردی ان کی گرفت سے نکل گئی ہے اور چار سو پھیل گئی ہے، ایسی کہ سرد موسم کے عادی بھی پریشان ہو گئے ہیں لیکن معلوم یہ ہوا کہ سردی نہ صرف ابھی زندہ رہے گی بلکہ چند دن اس میں اضافے کا امکان بھی ہے اور یہ امکان چونکہ محکمہ موسمیات نے ظاہر کیا ہے اس لیے روایت کے برعکس اسے قبول کرنا پڑے گا کیونکہ محکمہ موسمیات کو خود سردی لگنی شروع ہو گئی ہے ورنہ یہ محکمہ ہمارے ہاں تو کام ہی نہیں کرتا اور اگر کبھی کرتا دکھائی دیتا ہے تو شاذونادر ہی درست ہوتا ہے۔
میں پہلی بار لندن گیا تو ظاہر کہ اس سفر کا آغاز اس مشہور شہر کے بازاروں کی سیر سے کیا۔ میں نے دیکھا کہ بظاہر موسم ٹھیک ہے لیکن کچھ لوگوں نے چھتریاں اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔ اس تعجب کا اظہار میں نے ایک لندنی پاکستانی سے کیا تو اس نے بتایا کہ محکمہ موسمیات نے بارش کا امکان ظاہر کیا ہے اس لیے اپنے موسمیاتی محکمے پر اعتبار کرنے والوں نے احتیاطاً چھتریاں لے لی ہیں جو عام حالات میں بھی کسی گھر کے برآمدے میں لٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کہ اس شہر میں کسی بھی وقت بارش کے چھینٹے پڑ سکتے ہیں۔ اسی لیے شاید لندنی باشندے برساتی بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
بارش زدہ کپڑوں کی بحالی خاصی مہنگی پڑتی ہے اس کی سزا مجھے لندن کے پہلے دورے میں مل چکی تھی۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ لندن میں مقیم میرے پاکستانی دوستوں نے مجھ سے افسوس کا اظہار کیا اور ایک دوست نے قربانی دی اور میرے بارش زدہ کپڑوں کو گھر لے گیا جہاں کپڑوں کی اصلاح کے بعد خاتون خانہ نے مجھے لندن میں دن رات بسر کرنے کے مشورے بھی بھجوائے اور یہ وارننگ بھی کہ وہ آیندہ میری ایسی خدمت نہیں کرے گی فی الحال پہلی خطا معاف۔
ہمارے جیسے لاہور سے جانے والے افراد خاصے پریشان ہوتے ہیں۔ مثلاً پہلی بار ٹب میں نہاتے ہوئے میزبان مرحوم رزاق نے خبردار کیا کہ پانی ٹب سے باہر ہر گز نہیں گرنا چاہیے ورنہ بھیگی جگہ کو خشک کرنا بہت مشکل ہو جائے گا اور وہ بھی تمہارے جیسے اناڑی کے لیے۔ لندن جو ہمارے لیے خوابوں کا شہر ہے اور جس کے بود و باش کے طریقے لاہوریوں سے سراسر مختلف ہیں۔
انگریزوں نے صدیوں کے تجربے اور محنت کے بعد اپنے اس شہر کو آباد کیا ہے اور اب وہ لندن کے پردیسیوں کو یہ اجازت ہر گز نہیں دیتے کہ وہ ان کے صدیوں کی محنت کو ضایع کردیں۔ مثلاً میں لندن میں ایک پرانے دوست کے ہاں مقیم تھا اس نے جب مجھے نہانے کی تیاری کرتے دیکھا تو فوراً تنبیہ کر دی کہ پانی ٹب سے باہر نیچے فرش پر نہیں گرنا چاہیے۔ پھر اس نے اس کی حکمت اور مشکلات بھی بیان کر دیں۔ لندن میں پہلی بار قیام کے دوران مجھے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد میں ایک لندنی دوست نے مجھے ضروری ہدایات دے دیں اور میں سکھی ہو گیا ورنہ لندن مجھے خاصا مہنگا پڑ سکتا تھا اس نے مجھے بچت کے طریقے بھی بتائے اور لندنی سلیقے سے رہنے کے آداب بھی جس کے بعد میں خاصا سکھی ہو گیا اور لندن کا قیام بڑھا دیا۔ بہرحال میں لندن پلٹ تو ہو ہی چکا تھا۔ دیکھا نہیں مگر سنا ہے کہ کبھی جو لوگ لندن جاتے تھے تو اپنے تعارفی کارڈ پر لندن پلٹ کا اعزاز بھی درج کراتے تھے۔
بلاشبہ اس زمانے میں لندن صرف کسی دولت مشترکہ کا رکن نہیں تھا بلکہ دنیا کی ایک سپر پاور کا صدر دفتر اور شہر تھا جس کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ لندن کا یہ اعزاز مدتوں قائم رہا تاآنکہ اس کے ایک زیر تربیت شہر اور ملک امریکا نے اس کی جگہ لے لی اور قدرت نے ایک بڑی طاقت کو نیچے گرتا دیکھ لیا اور اسے گرایا بھی اس کی ایک زیرتربیت قوم اور ملک نے جنہوں نے جہانبانی کے طریقے اور راز اسی ملک یعنی برطانیہ سے سیکھے۔ ہم پاکستانی اور اس سے پہلے ہندوستانی جو صدی ڈیڑھ صدی تک برطانیہ کے غلام رہے برطانیہ کے اقتدار کو غروب ہوتے دیکھا اور اس کی جگہ ایک اور ملک امریکا کو لیتا دیکھا۔ یعنی دنیا کی دو سپر پاور ہماری ہندوستانی اور پاکستانی قوم کے سامنے سے گزریں اور ان کے زوال اور عروج کو پاکستانیوں نے دیکھ لیا۔
برطانیہ کے بعد آج امریکا دنیا کی سپر پاور ہے لیکن اس کے اندر وہ وضعداری اور رکھ رکھاؤ نہیں جو انگریزوں میں تھا۔ امریکا نے انگریزوں سے بہت کچھ سیکھا اور آج بھی وہ اپنی اس تعلیم کو اپنے انداز میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ برطانیہ ادھ موا ہو کر پڑا ہے لیکن امریکا ایک جوان اور توانا ملک بن کر دنیا پر چھا رہا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کبھی برطانیہ دنیا کا حکمران تھا اور اس کا پرچم دنیا بھر میں لہراتا تھا۔ ’’ہم دنیا میں دنوں کو بدل دیتے ہیں‘‘۔