تحریر: ضیغم سہیل وارثی
جو چلتے ہیں وہ رکتے نہیں ہیں ،اور جو رکتے نہیں ہیں وہ آگے بڑھتے رہتے ہیں ، جو آگے بڑ ھتے رہتے ہیں دنیا ان کی مثالیں دیتی ہے ۔دینا بنتی بھی ہیں ،ساتھ دوسروں کے لئے اچھا پیغام ہوتا اگر وہ سمجھیں تو ،ساتھ ایک شعر بھی جو بات کو کرئے گا اور وا ضع۔۔۔
جنوں نے مجھ کو بنایا ہے مدعی میرا
ہمیشہ ہاتھ میں میرے مرا گریباں ہے
زندگی کے سفر میں بہت سے موڑ آتے ہیں ،ان موڑوں میں بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں، کچھ ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں ، کچھ کے خیالات متاثر کرتے ہیں ، خاکسار ملاقاتوں میں ان سے کی گئی باتوں کا اکیلے بیٹھ کر جوس نکلاتا رہتا ہے ، یورپ کے وزٹ پر ایک ملاقات میں نکلایا گیا تازہ جوس میرے خاص پڑ ھنے والوں کے نام۔ سلسلہ چلا تھا برطانیہ سے وہاں کے بعد گھومتے گھومتے فرانس ،اٹلی کے بعد جب اسپین پہنچے تو ایک ایسے شخص سے ہمارے ایک عزیز نے ملاقات کروائی کے اس شخص کی زندگی کے چڑھتے روپ سے محسوس ہوا کہ یہ باتیں اپنی تحریر کا حصہ بنائی جائیں تو ہو سکتا ہے بلکے ہو گا کہ بہت سے ایسی مثالوں سے زندگی کے امتحان کی کامیابی کے لیے سبق حاصل کریں گے۔
برطانیہ سے جس طرف بھی گیا بہت سے نام ایسے جن کی مہمان نواز ی میں کھا نے تو اچھے ملے ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ جو سبق آموز باتیں ملی ہیں وہ اپنے اندر جذب کرنے والی تھیں۔ زیادہ تفصیل یہاں نہیں کیونکہ خاص موزوں پر ایک مکمل کتاب لکھ رہا ہوں جو جلد ہی پاکستان جاکر پبلش ہو گی یہاں بس اسپین کے ایک شخص کا ذکر کر تا چلوں گا جو پاکستان سے بہتر مستقبل کے خواب لیے بالا آخر اسپین پہنچا ۔ یہاں اس کی فلائٹ اتری ہو گی تو سوچا ہو گا کہ ایک فٹ سی جا ب ملے گی وہ بھی آٹھ گھنٹے کی پھر عیاشی ماریں گے ،مگر یہاں کی حقیقت ایسی تلخ ہوتی ہے جیسے کالج کے لیول میں کی گئی محبت کی حقیقت ہوتی۔
جاب ملی ایک پٹرول پمپ پر ، اس سے گزارہ نہ ہوا،ساتھ پارٹ ٹائم بھی فل ٹائم ہی تھا مگر دال روٹی پاکستان کے لئے کرنی پڑی۔ ایک دو سال کی محنت کے بعد یہ بند ہ اس قابل ہوا کہ اپنی چھوٹی سی شاپ بنا سکا ۔ سلسلہ ایک شاپ تک نہیں روکنا تھا ، اس لئے شاپ کے ساتھ خود پارٹ ٹائم جاب جا ری رکھی ، مختصر۔ صرف پندرہ برس کے کم عرصے میں یورپ کی ایک بڑی کمپنی کے نام سے بیس بائیس شاپ اور بہت سارا بزنس بنا چکا ، یہاں تک قارئین سمجھ رہے ہوں گے راقم کس کی تعریف کرنے چل پڑھ ، تو عرض کر تا چلوں ان صاحب سے ملاقات اتنی ہوئی کہ سلام دعا ، پھر یہ معلومات ۔۔ یہ معلومات ایک ساتھی نے دی جب ان صاحب کا ذکر چلا ، ساری تفصیل میں خاص بات کیا ، کیونکہ میں دنیا میں سب ہی زیرو سے بزنس شروع کرتے اور بہت آگے تک جاتے۔
اب بات کرتے ہیں کہ خاص بات کیا، افس پہنچے تو ایک کرسی پر ایک محترمہ دوسری طرف منہ کر کہ کسی سے کہہ رہی تھیں کہ ہمارے آفس میں نماز پڑھنے والے بہت ہو گے لہذا اگر جائے نماز اور چاہیے تو کمپنی کے خرچے سے خرید لی جائیں ، یہ سن کر حیران ہو ا کہ یورپ میں اور وہ بھی ایک پاکستانی کے کاروبار میں نماز کا اتنا اہتمام ۔حیرانگی تو ہونی تھی ، کیونکہ دیکھ چکا تھا کہ یہاں پاکستانی اپنے پاکستانیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں ۔باتیں شروع ہوئیں۔ تو معلوم پڑھا کہ یورپ میں کبڈی جیسے کھیل کے لئے ماحول فراہم کیا جاتا ۔ جو صاحب یہ بتارہے تھے میں ان کی طر ف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے یہ کوئی لطیفہ سنا رہے ہوں ۔ یقین ایسے تو آنا نہیں تھا ۔ تصویر یں دیکھیں تو پتہ چلا کہ ہاں یہ حقیقت ہے ۔ کبڈی جیسے کھیل کو پا کستا ن میں اہمیت نہیں دی جا تی ۔ حالانکہ ایسے تفر یح کے پروگرام ہوں تو بہت سے مثبت نتائج حاصل ہو تے ہیں ۔ اپنے وطن کے حکمران اس بات کو نہیں خاطر میں لاتے مگر وہاں سے آیا ہوا شخص اس اہمیت سے خوب واقف ہے ۔ ایسے اگر ایک فرد کرتا ہے تو اور بہت سے ہا تھ شامل ہو جاتے ۔ دنیا میں قافلے ایسے ہی چلا کرتے ہیں۔
خیر کبڈی کا سنا تو سوچ آئی کہ وہ شخص بھی پہلوان ٹائپ ہو گا ، جب سامنے آئے تو دیکھنے سے ایسے لگا کہ پاکستان سے ایم بی اے کر کہ یہ جوانی کی عمر میں یہاں آیا ہو گا۔ بعد میں معلو م پڑھا کہ میرا اندازہ تو ٹھیک تھا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ اتنی کم عمر میں یہ پاکستانی یورپ کی بزنس لائن میں اپنا مقام بنا چکا اور ایورڈ یافتہ ہے ۔ کہاں پٹرول پمپ کہاں یہ بزنس اور کہاں یورپ بزنس ایواڈ ۔ سب میر ے دماغ میں مکس ہو رہا تھا ۔ مگر میں ایک بات بھو لا نہیں تھا کہ کامیابی اسی کو ملتی ہے جو زور بازو پر بھر وسہ کرتا ہے ۔ ناکامی اسی کا مقدر بنتی جو تھوڑی سی ہا ر کے ہاتھوں چپ کر کہ رکے جاتا ہے ۔ پاکستان کے بہت سے نامور نام ایسے جن کی مثالیں دی گئی ہیں۔
میں نے اس شخص کے بارے پہلے کچھ پڑ ھا نہیں تو افسوس ہوا کہ ایسی مثالیں کیونکہ نہیں عوام تک جاتی ہیں ان لوگوں کی جو زندگی میں اپنے مذہب کے ساتھ اپنی ثقافت کا ایسا خاص خیال کر تے ہیں جو ان کے اتنے بس کی بات نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش جاری رکھتے ہیں ۔ یہ شخص گجرات کے ایک گوں سے تعلق رکھتا اب ہو سکتا کہ یہ اپنے نام کے ساتھ کچھ خاص اضافہ کرتا ہو گا لیکن یہ ان صاحب کا نام امانت علی ہے ۔ پاکستان میں اور یورپ جیسے ایرا میں کا روبار کرنے والے کیا ایسے مزاج کے ہو تے ہیں کہ جو معاشرے کی خرابیوں کو ختم کر نے کے لئے ایسے اقدامات کر تے ہیں جن سے معاشرے کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔
گو کہ بہت سی لمبی لسٹ جو ایسے اپنے وسائل سے پروگرام منعقد کرتے ہوں گے ، مگر ہم اپنی تحریروں کے ذریعے پیغام پہنچا سکتے ہیں کہ کیسے محنت سے زیرو سے ہیرو لوگ بنتے اور وہ اپنی اوقات میں رہتے ہیں اور اپنے معاشرے اور تہذیب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، ورنہ ہمیں ایسی کہانیاں بھی سنے کو ملی ہیں جو چلا کو ے کی چال تو اپنی چال بھی بھول گیا۔ اب دیکھنا یہ ہو تا کہ ہم ایسی مثالوں سے کتنا کچھ حاصل کرتے ہیں یا پھر بس آنکھوں سے پڑء کر اور کانوں سے سن کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جو چلتے ہیں وہ رکتے نہیں ہیں ،اور جو رکتے نہیں ہیں وہ آگے بڑھتے رہتے ہیں، جو آگے بڑھتے رہتے ہیں دنیا ان کی مثالیں دیتی ہے۔ دینا بنتی بھی ہیں ،ساتھ دوسروں کے لئے اچھا پیغام ہو تا اگر وہ سمجھیں تو ،ساتھ ایک شعر بھی جو بات کو کرئے گا اور واضع۔۔۔
جنوں نے مجھ کو بنایا ہے مدعی میرا
ہمیشہ ہاتھ میں میرے مرا گریباں ہے
تحریر: ضیغم سہیل وارثی