آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران ضغیر (اقبالؒ)
اگر موجود فسادات کی بات کی جائے تو اب تک ایک سو سے زائد نہتے کشمیری شہید ہوچکے ہیں، تقریباً دس ہزار کشمیری زخمی ہوچکے ہیں اور درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کشمیری بیلٹ گن کی گولیاں لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ یا دونوں آنکھوں سے جزوی یا مکمل طور پر محروم ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ سے لگاتار کشمیر کے تمام اضلاح میں کرفیو نافذ ہے، ریڈیو، انٹرنیٹ اور موبائل سروسز معطل ہیں، حتٰی کے عید کے ایام میں بھی کرفیو جاری رہا، مسلمانوں اور کشمیری رہنماؤں کو نہ صرف نماز عید ادا نہیں کرنے دی گئی بلکہ کشمیری عوام قربانی کا مذہبی فریضہ بھی ادا نہ کرسکے۔ جن پیلٹ گنوں کا استعمال کشمیر کے نہتے عوام پر کیا جارہا ہے عام طور پر ان کا استعمال جانوروں کے شکار کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن ہندو سرکار کشمیر پر قبضے کو جائز ثابت کرنے کے لیے انسانی حقوق کو سرے سے بھول ہی چکی ہے۔
ابھی اِس جابرانہ تشدد کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ اب بھارتی ظالم ریاست نے وہاں ’پاوا‘ نامی ہتھیار کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ پاوا کو عام زبان میں مرچوں والا کارتوس کہا جاتا ہے، یعنی پاوا کو جس ہجوم پر بھی استعمال کیا جاتا ہے وہ وقتی طور پر بے حس و حرکت ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے گرفتاریوں میں آسانی ہوتی ہے۔ پاوا کے استعمال سے آنکھوں میں شدید جلن اور خارش پیدا ہوتی ہے، نیز اس سے جلد کی حساسیت میں اصافہ ہوجاتا ہے جس سے خارش اور جلد کی بیماریوں کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ پاوا کے نقصانات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اُس کی تیاری میں کمیکل کتنی تعداد میں استعمال ہوا اور یہ کارتوس کتنے فاصلے سے چلایا جاتا ہے۔ اس کا منظور شدہ فاصلہ چار سے پانچ میٹر تک ہے، اگر اِس فاصلے کو مدنظر نہیں رکھا گیا تو نقصان بہت زیادہ بھی ہوسکتا ہے، ویسے عام خیال یہی ہے کہ اِس منظور شدہ فاصلے کا خیال نہیں رکھا جائے گا کیونکہ جب بھارتی فوج نے کسی ایک معاملے میں بھی اُصولوں کی پرواہ نہ کی تو وہ اب ایسا کیونکر کرے گی؟
اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کشمیری ریاست کا وجود تقسیم سے پہلے بھی موجود تھا، تقسیم کے وقت فوجی قوت پر کشمیر کو دو علیحدہ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور کشمیر کے حتمی اور مستقل حل کے لیے عالمی ادارے اقوام متحدہ میں قراردادیں جمع کرائی گئی جن پر یہ فیصلہ دیا گیا تھا کہ کشمیر کی عوام کو حق خودارادیت کا اختیار دیا جائے، اور وہ جس کے ساتھ بھی رہنے کا فیصلہ کریں اُنہی کے ساتھ اُن کو شامل کیا جائے، لیکن چونکہ بھارت یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر یہ کام کاردیا گیا تھا اُن کے ساتھ سے مقبوضہ کشمیر باآسانی نکل جائے گا، اِس لیے وہ مسلسل اِس کام میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ دنیا کی تمام ہی طاقتیں اِس ظلم و ستم کے باوجود خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں حالانکہ ایسے ہی مسائل سوڈان اور مشرقی تیمور میں درپیش تھے جہاں اقوام متحدہ نے اپنا اثر و رسوخ دکھایا اور یوں مسئلہ پُرامن طور پر حل ہوگیا، لیکن ناجانے کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کیوں اور کب تک خاموش رہے گی۔
اِن تمام تر حالات میں پوری اسلامی دنیا اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر کے موقف کو عالمی سطح پر اٹھانے میں واضح کردار ادا کریں۔ وکیل کشمیر پاکستان پر بھی لازم ہے کہ وہ محض بیان بازی پر اکتفا نہ کرے اور نہ کشمیر کے مسئلے کو اٹھانے کے لیے اقوام متحدہ کے اجلاسوں کا انتظار کرے بلکہ روزانہ کی بنیاد پر کشمیر کا مقدمہ لڑا جائے۔ پاکستان اب یہ اعلان کرے کہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں تو پاکستان بھی بھارت کے ساتھ اُس وقت تک ہندوستان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گا جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوجائے۔ کیونکہ اگر آج بھی ہم نے وہی روایتی پالیسی اپنائی رکھی تو بعید نہیں کہ اگلے 70 سال بعد ہماری نئی نسل بھی یہی باتیں کررہی ہوگی جو آج ہم کررہے ہیں اور کشمیر میں پیلٹ اور پاوا کی جگہ کوئی نیا کمیائی ہتھیار لے لے اور معصوم کشمیری یونہی اپنی شہادتیں پیش کررہے ہوں۔
بشکریہ ایکس پریس