کرپشن کے معنی بہت وسیع ہیں۔ کرپشن ایک ایسی خرابی ہے جس سے پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ کمپیوٹر استعمال کرنے والے افراد جانتے ہیں کہ ’سسٹم کرپٹ‘ ہونے سے نہ صرف کمپیوٹر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے بلکہ ہمیں اس سسٹم کو بحال کرنے کے لیے نیا نظام سسٹم میں شامل کرنا پڑتا ہے۔ اِسی طرح ہمارا ملک پاکستان بھی اس سسٹم کی مانند ہے جس سے کرپٹ نظام جیسے ناسور کا سامنا ہے۔
ہمارا مسئلہ سسٹم کی کرپشن نہیں، سرے سے سسٹم کا نہ ہونا ہے۔ ہم نے پاکستان کے رہنے والوں کو آج تک یہ نہیں بتایا کہ ہمارے ملک کا معاشی نظام کیا ہے، ہمارے کل وسائل کیا ہیں اور ہم وہ وسائل کہاں خرچ کرتے ہیں؟ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ بحیثیتِ قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترقی کی راہ میں کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار ہماری سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جس نے وطن عزیز اور عوام کو تعلیمی، عدالتی، معاشی، تعمیراتی اور زندگی کے تمام شعبوں میں مصائب و مشکلات سے دوچار کیا ہوا ہے۔ بدعنوانی کی وجہ سے روزانہ ہزاروں پاکستانیوں کے حقوق تلف کیے جا رہے ہیں۔ آخر ہماری قوم یہ ظلم و ستم سہنے پر کیوں مجبور ہے اور ہمارے سیاست دان سوائے چند ایک کے اپنے کارکنوں کو اصل حقائق بتانے سے کیوں گریزاں ہیں؟
اگر ہم اُن سیاستدانوں کی بات کریں جو کرپٹ نظام کے متعلق عوام میں شعور بیدار کرتے رہیں ہیں جن میں عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری اور سراج الحق کا اہم کردار رہا لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری کا کردار ہمیں صفِ اول میں دیکھنے کو ملا۔ جنہوں نے 2014 کے دھرنے کے دوران آرٹیکل 62 اور 63 کی آگاہی کے ساتھ ساتھ، ہمارے حکمران کالا دھن کس طرح سفید کرتے ہیں بلیک منی کو کس طرح وائٹ منی میں تبدیل کیا جاتا ہے، ایک ایک چیز کی نشاندہی کی۔ مگر ہماری قوم نے ان اہم معلومات کوپشِ پشت ڈالا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 12 ارب روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے یعنی 4380 ارب روپے سالانہ۔
پاکستان میں انتخابات کا وقت قریب سے قریب تر ہے لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی ہم کرپٹ نظام کے تحت 5 سال کے لیے اگلی حکومت کا چناؤ کرنے جا رہے ہیں۔ احتساب کا واویلہ تو ہم نے بہت دیکھ لیا اور سن لیا، اب اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ جس میں سرکاری ملازم کے ساتھ ساتھ ہر مقدس گائے بھی شکنجے میں آئے۔اب وقت آگیا ہے کہ شفاف و منصفانہ، کڑا احتساب اور کرپشن کا مکمل خاتمہ کیا جائے خواہ وہ نیب کرے یا ایف آئی اے۔ پاکستان کا ہر شہری کرپشن کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے، تمام ریاستی و غیر ریاستی اداروں بشمول سیاسی جماعتوں اور انکے رہنمائوں کا سخت اور شفاف احتساب ہی نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں چیک اینڈ بیلنس کے نظام کا آغاز کیا جانا چاہئیے تاکہ آئندہ آنے والے وقت میں پاکستان کو کرپشن جیسی لعنت سے بچایا جا سکے۔
کرپشن کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ کرپٹ لوگوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ سزا و جزا کے لیے عدالتی حکم پر عملدرآمد اور عدالتی نظام کو تیز تر کیا جائے۔ تاکہ لوگوں کو جلد از جلد انصاف مل سکے۔ خاص کر ان لوگوں کو جو کرپشن کی زد میں آ کر اپنی جائیدادیں تک گنوا بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کی حالت یہ ہے کہ غلط کام یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ حساب تو تبھی ہوگاجب پکڑے جائیں گے اورجب پکڑے جائیں گےتب دیکھا جائے گا۔ ہمارے اس عمل کی وجہ سے دنیا آج ہم پر اعتبار نہیں کرتی۔ کڑے احتساب اور مکمل انصاف سے ہی ہمیں باوقار قیادت میسر آ سکے گی۔ ہمیں دنیا میں نہ صرف پاکستانی قوم ہونے کے بلکہ بحیثیتِ مسلمان ہونے