لاہور (ویب ڈیسک) عمران خان کی جو ملاقات صدر ٹرمپ سے ہو گی اس میں ابھی پورا ایک ہفتہ باقی ہے۔ اس ملاقات میں اس امداد کی بحالی کا ذکر ضرور زیرِ بحث آئے گا۔ وزیراعظم اب تک مختلف ملکوں میں بین الاقوامی عسکری اور اقتصادی فورموں میں شریک ہو کر حکمرانی کا نامور مضمون نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ایک ابتدائی اور اساسی تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی نظر ان دونوں موضوعات پر نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین کے مقابلے میں زیادہ دوررس معلوم ہوتی ہے۔ نون لیگ نے تو جنرل عبدالقیوم اور جنرل قادر بلوچ کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے عسکری ترازو کا توازن ایک حد تک برابر کر رکھا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی صفوں میں کوئی ایسا جرنیل مجھے نظر نہیں آتا جو اس کمی کو پورا کر سکے۔ اور جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو تینوں پاکستانی افواج اس کی پشت پر کھڑی ہیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم جب امریکی سول / ملٹری آفیسرز سے بات چیت کریں گے تو ان کو اپنی ملٹری کی بالواسطہ اور براہِ راست سپورٹ حاصل ہوگی۔ امریکی آفیسرز کو بھی اس بات کی خبر ہے کہ عمران خان کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا وزیراعظم ملا ہے جو نہ صرف خود سرٹیجک ملٹری معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے بلکہ اس کو مسلح افواج کی بھی مکمل تائید و حمائت حاصل ہے۔اس لئے میرا خیال ہے کہ اس امریکی دورے میں آرمی کی ٹاپ براس بھی عمران خان کے ہمراہ ہو گی۔ اس تناظر میں اگر پیپلزپارٹی یہ کہے کہ بلاول زرداری، عمران خان سے پہلے امریکہ کا دورہ کرکے وزیراعظم پر کوئی پوائنٹ سکورنگ کر لیں گے تو یہ ایک مضحکہ خیز بیان ہو گا۔ بلاول خواہ عمران کے دورے سے پہلے امریکہ جائیں یا بعد میں جائیں، ایک بار جائیں یا بار بار جائیں اکیلے جائیں یا کسی پارٹی وفد کو ساتھ لے کر جائیں اس سے کیا فرق پڑے گا؟……زیرو +زیرو+زیرو =زیرو…