لاہور (ویب ڈیسک) جنرل پرویز مشرف سے معاہدہ کر کے نواز شریف جدہ جا چکے تھے۔ پاکستان میں پارٹی کے معاملات نام کو جاوید ہاشمی کی صدارت میں سونپ دیے گئے تھے مگر عملاً بہت سے مخبر براہ راست سرور پیلس جدہ کو رپورٹ کرتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے ایک کارکن کے ساتھ سروسز ہسپتال می نامور کالم نگار ارشد شریف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔معائنے کے لئے آئے جاوید ہاشمی سے ملنے گیا۔ جاوید ہاشمی ان دنوں حراست میں تھے۔ جس روز انہوں نے ہسپتال آنا ہوتا لیگی کارکن اور میڈیا کے لوگ انہیں ملنے آ جاتے۔ میں نے جاوید ہاشمی کی گفتگو سنی۔ وہاں موجود کارکنوں کی باتیں سنیں تو معلوم ہوا یہ سب اس بات پر شاکی ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے پارٹی رہنمائوں کو اعتماد میں لئے بغیر سرور پیلس کی راہ لی۔ صورت حال آج بھی اس مقام پر ہے سعد رفیق اور کچھ دوسرے لیگی اگر زبان دانتوں میں دبا کر شکوہ کر رہے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ لیگی قیادت نے غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ شہباز شریف ‘ ان کے صاحبزادے سلمان شہباز‘ میاں نواز شریف کے بیٹے حسین اور حسن نواز باہر ہیں۔ شہباز شریف ہر روز امریکہ اور برطانیہ میں طاقتور سفارشی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ایک اچھے منیجر ہیں۔ چیزوں کو ترتیب سے رکھ سکتے ہیں۔ معاملات کی ترجیحات تشکیل دے سکتے ہیں اور اپنے خاندان پر آئی نئی افتاد روکنے کے لئے جوڑ توڑ کر سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ شریف خاندان ریاست کا سب سے لاڈلا خاندان ہے۔ اس خاندان کے لئے ریاست ہمیشہ ماں جیسی رہی۔ ریاست نے ان لوگوں کو سیاست اور کاروبار کے جو مواقع عطا کئے وہ کسی سہگل‘ آدم جی اور فرشتہ کو کہاں ملے۔ ریاست نے ان کو بادشاہوں کی طرح پالا‘ جب ریاست ناراض ہوئی تھوڑی دیر کے لئے گود سے اتار دیا۔ محبت کاعنصر موجود ہے۔ لہٰذا پھر پیار سے بلایا۔ سمجھایا اور بادشاہ بنا دیا۔ یہ خاندان اپنے مفادات کو جماعت کی شکل میں ڈھالنے میں کامیاب ہوا۔ محلے سے لے کر مرکزی تنظیم کے عہدیدار تک اس خاندان کے ملازم‘ بروکر یا شراکت دار ہیں۔ اس کے حامی وہ لوگ ہیںجو اس کے مفاداتی کھیل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مشہور کالم نگار‘ اینکر‘ پراپرٹی ڈیلر‘ اپنے قلم اور روپے سے اس خاندان کا دفاع کرتے ہیں۔نواز شریف‘ شہباز شریف‘ مریم نواز‘ حمزہ شہباز‘ حسن نواز‘ حسین نواز‘ سلمان شہباز اور پیارے ریٹائرڈ کپتان صفدر ‘سب کا دفاع کیا جاتا ہے۔ کیا کسی مہذب ملک میں پارٹی پالیسی کی بجائے برسہا برس تک شخصیات کو زیر بحث رکھا جاتا ہے؟ نوازشریف کو سپریم کورٹ نے سرکاری انتظامات پر عدم اطمینان اور شکایات پر چھ ہفتے کے لئے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔نواز شریف جیل میں تھے تو روز مریم بی بی ٹوئٹ کرتیں کہ انجیو گرافی نہیں کرائی جا رہی۔ ضمانت کی مدت ختم ہونے پر عدالت عظمیٰ نے سوال کیا کہ انجیو گرافی کرائی؟ جواب ملا نہیں‘ عدالت عظمیٰ نے پوچھا اب بیماری کی شدت کیسی ہے‘ جواب میں عدالت کو ان ڈھیر ساری بیماریوں کی تشخیصی رپورٹس پیش کر دی گئیں جن کی موجودگی میں کسی انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں رہتا۔ یقینا عدالت کو حیران ہونا چاہئے تھا۔ محترم چیف جسٹس نے آخر کہہ دیا کہ’’ جیل کی نسبت باہر آ کر نواز شریف زیادہ بیمار ہو گئے ہیں‘‘۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ نوازشریف کے معاونین ان کا علاج کرانے کی بجائے عدالت کو اگلی درخواست کے ساتھ ان کی طبیعت زیادہ خراب بتانے کا انتظام کرتے رہے۔ مہنگے اور ارب پتی وکیل اس نکتے کو بھول گئے کہ پہلی درخواست میں انہوں نے حکومت پر علاج میں کوتاہی کا الزام لگا کر رعائت حاصل کی۔ دوسری درخواست میں اگر نواز شریف زیادہ بیمارظاہر ہوئے تو کوتاہی کا ذمہ دار ان کے خاندان اور معالجین کو سمجھا جائے گا۔ مسلم لیگی دماغ ان دنوں تاثر دے رہے ہیں کہ ریاست اور شریف خاندان کے درمیان ڈیل ہو چکی ہے‘ اب اس ڈیل پر عملدرآمد کے لئے فریقین شرائط پوری کر رہے ہیں۔ ساتھ ایک تاثر یہ ابھارا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی کوئی حیثیت نہیں اور ڈیل کا عمل ان سے بالا بالا ہو رہا ہے۔ یہ نکتہ اپنا مستقبل محفوظ رکھنے اور عمران خان کی سیاسی ساکھ کو بے وقعت کرنے کی کوشش ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ اس سارے معاملے میں پیپلز پارٹی صرف دوسرے نکتے پر بات کر رہی ہے۔ خورشید شاہ کی سیاست پر کسی وقت پورا کالم لکھوں گا۔ سردست یہ جان لیں کہ اعتزاز احسن اور خورشید شاہ پارٹی میں پنجاب اور سندھ کی سوچ کے درمیان اختلاف کے نمائندہ ہیں۔ اسی وجہ سے خورشید شاہ جب یہ کہتے ہیںکہ ’’ڈیل دینے والے اور ہیں عمران سے کون پوچھتا ہے‘‘ تو وہ شریف اور زرداری خاندان کے نئے میثاق کا بیانیہ پیش کرتے ہیں۔ نواز شریف کی پرورش ریاست کی اس وقت ضرورت ہو گی جب بے نظیر بھٹو عوام میں پذیرائی حاصل کر رہی تھیں اور ریاست کو خوف تھا کہ وہ اپنے والد کی موت کا ذمہ دار ریاست کو سمجھ کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا لیں۔ نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے میدان میں اتارا گیا۔ بے نظیر کے ساتھ صرف عوام تھے۔ حالات کا جبر تھا‘ ریاست نے انہیں قبول کیا مگر اختیار نہ دیا‘ اختیار صرف نواز شریف کو ملا۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف بدل گئے ہیں۔ کے پی کے اور بلوچستان کے قوم پرستوں اور مولانا فضل الرحمن سے ان کے اتحادی رشتے کو وسیع جمہوری سوچ بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں کی کنٹرولڈ جمہوریت سے بغاوت کی سزا بھگت رہے ہیں‘ ان کی پسپائی کو ایک ایسے فاتح کی ہار بنا کر داستانیں لکھی جا رہی ہیں جسے اپنوں کی غداری نے مروایا۔ یقین کریں ریاست آج بھی نواز شریف اور ان کے خاندان پر مہربان ہے ورنہ اب تک یہ قانون قانون کا کھلواڑ ختم ہو چکا ہوتا اور اگر مگر کا سلسلہ ختم ہو کر ریاست اپنا پیسہ واپس لے چکی ہوتی۔