لاہور (ویب ڈیسک) کہتے ہیں نشے تو بہت سے ہوتے ہیں۔اور اچھے برے ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ لیکن طاقت کا نشہ سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ یہ نشہ دوسروں کو ہی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ خود اس نشے میں مدہوش شخص کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ طاقت کے نشے میں مدہوش شخص یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ نامور کالم نگار مسعود اشعر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے دشمنوں کی جڑیں کاٹ رہا ہے،لیکن دراصل وہ اپنی اس طاقت کی جڑیں ہی کاٹ رہا ہوتا ہے جس طاقت نے اس کی آنکھوں پر پردے ڈال رکھے ہوں۔ یہاں تک لکھنے کے بعد ہم سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ اس سے آگے بھی لکھیں یا نہیں؟ ہمارا خیال ہے سوچنے سمجھنے والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اب اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کی قسمت۔ اصل میں ہم تو چلے تھے اپنے پسندیدہ کالم نگار جاوید نقوی کا ذکر کرنے جنہوں نے ایک ایسی نظم بھیجی ہے جو ان کے اپنے ملک ہندوستان کے ساتھ ہمارے اوپر بھی صادق آ تی ہے، بیچ میں یہ طاقت کا نشہ آ گیا۔ اور ابھی خیال آ یا کہ یہ طاقت کا نشہ شاید اس لئے بھی یاد آ گیا ہے کہ کل ہی پانچ جولائی تھی۔ وہ دن جب ہمارا ملک رجعت قہقہریٰ کے اندھیروں میں ڈبو دیا گیا تھا۔ رجعت قہقہریٰ کا وہ اندھا کنواں، جس سے آج تک ہم باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ بلکہ ہم اور ڈوبتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ جاوید نقوی ہیں تو انگریزی کے کالم نگار، مگرسیاست کے ساتھ اردو ادب، قدیم و جدید تاریخ اور فنون لطیفہ کی ہر شاخ پر اتنی گہری نظر رکھتے ہیں کہ ان کے کالم پڑھنے والا بیک وقت تمام اصناف کا مزہ لیتا ہے۔ ہماری طرح ہندوستان میں بھی بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ اور وہاں بھی بے شمار ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں۔ ان ٹیکسوں پر ہی جاوید نقوی نے ایک نظم بھیجی ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے۔ اب وصل کے اصرار پہ بھی ٹیکس لگے گا۔۔ سنتے ہیں کہ دیدار پہ بھی ٹیکس لگے گا ۔۔ اب ٹیکس ادائوں پہ بھی دینا ہی پڑے گا ۔۔ بے وجہ کے انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا ۔۔ بھر جا ئے گا اب قومی خزانہ یہ ہے امکاں۔۔ ہر عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا ۔۔ جس زلف پہ لکھتے ہیں صبح و شام سخن ور ۔۔ اس زلف کے ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا ۔۔ یاسر میاں دیوان کو اب اپنے سمیٹو ۔۔ کہتے ہیں کہ اشعار پہ بھی ٹیکس لگے گا ۔۔ اب یہ یاسر میاں کون ہیں؟ جاوید نقوی نے ان کا تعارف نہیں کرا یا ۔لیکن آپ باہرسڑکوں پر نکل کر خود ہی دیکھ لیجئے کہ یہ نظم ہمارے اوپر کتنی صادق آ تی ہے۔ سیمنٹ بیچنے والوں نے اپنی دکانیں بند کر دی ہیں۔ موٹر کاروں والے اپنے شو روم بند کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ ملک بھر کے تاجر سوچ رہے ہیں کہ اب اگلا قدم کیا اٹھائیں۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کا جو حال ہوا ہے وہ کسی گھر والی سے پوچھ لیجئے۔ اب ہم کسی سائنٹیفک تحقیق کے بعد تو نہیں کہہ رہے ہیں‘ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر چوک اور ہر موڑ پر بھکاریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ بھکاری ہر صبح، ہر دوپہر اور ہر شام ہمارا راستہ روکتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہمارے افسانہ نگار دوست اکرام اللہ کا دل تو پسیج جاتا ہے۔ اور ان کا ہاتھ جیب میں چلا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں غصہ آ جاتا ہے اور شاید اسی لیے کوئی بھکاری ہماری طرف نہیں آ تا۔ اور آپ کو چند دن پہلے والی وہ خبر بھی یاد ہو گی کہ ان بھکاریوں نے پولیس والوں پر حملہ کر دیا تھا۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو ایسے واقعات کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے؟ ابھی تک تو کسی نے نہیں سوچا۔ اور شاید یہ سوچیں بھی نہ۔ سمجھ میں نہیں آ تا کہ عمران خاں صاحب نے حکومت سنبھالتے ہی جو ”پناہ گاہیں‘‘ بنائی تھیں وہ کہاں گئیں۔ بڑی تصویریں چھپی تھیں ان پناہ گاہوں کی۔ بہت شور ہوا تھا ان پناہ گاہوں کا۔ پھر وہ غائب ہو گئیں۔ اور عمران خاں ہر روز جن نئے نئے منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں، ان سنہری خوابوں کے ساتھ انہوں نے کبھی بازاروں اور بھکاریوں والے چوکوں اور نکڑوں پر بھی نظر کی ہے یا نہیں؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔نئے نئے منصوبوں پر ہمیں یاد آئی جنرل مشرف کی وہ حکومت جس میں اپنے شیخ رشید ریلوے کے وزیر تھے۔ شیخ رشید آج کل کی طرح ان دنوں بھی ہر روز ایک نئی ریل گاڑی چلانے کی خوش خبری سنا رہے تھے۔ اتفاق سے ہمارے ایک عزیز کراچی سے آنے والے تھے۔ انہیں لینے ہم لاہور کے ریلوے سٹیشن گئے تھے۔ ریل گاڑی حسب معمول کافی تاخیر سے آ رہی تھی۔ پلیٹ فارم پر ٹہلتے ٹہلتے ہم تھک گئے۔ بیٹھنے کی کوئی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ ادھر ادھر دیکھا تو سامنے ریلوے کے ایک افسر کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ ہم سلام کرکے اس کمرے میں جا بیٹھے۔ خاصے عمر رسیدہ ایک صاحب وہاں بیٹھے تھے۔ سمجھ گئے کہ یہ تھکا ہارا شخص کمر سیدھی کرنے یہاں آ گیا ہے۔ بڑے تپاک سے ملے۔ ہم نے مبارک باد دی کہ ہر ہفتے نئی نئی ریل گاڑیاں چل رہی ہیں۔ آپ تو بہت خوش ہوں گے؟ ان صاحب نے ہماری مبارکباد سن کر زور کا قہقہہ لگایا۔ ”پرانی ریل گاڑیوں کے نئے نئے نام رکھے جا رہے ہیں اور ان کے افتتاح کئے جا رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ۔اب ہم یہ تو نہیں کہتے کہ آج کل بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر ہفتے نئی نئی ریل گاڑیاں چلانے کے لیے نئے نئے انجن اور نئے نئے ڈبے کہاں سے آتے ہیں۔ اگر یہ انجن اور یہ ڈبے پہلے بھی موجود تھے، تو انہیں استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا تھا؟ کیا انہیں خالی کھڑے کھڑے زنگ کھانے کے لیے شیڈ میں چھوڑ دیا گیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو خواجہ سعد رفیق سے اس کا جواب طلب کرنا چاہیے۔ یہ بھی تو بہت بڑا جرم ہے۔ لیکن آج کل یہ جو ہر دوسرے ہفتے یا مہینے ریل گاڑیوں کے حادثے ہو رہے ہیں، ان کا جواب کون دے گا؟ اور پھر یہ بھی سوال ہے کہ یہ حادثے کیوں ہو رہے ہیں؟ کیا ڈرائیوروں پر کام کا بوجھ زیادہ پڑ گیا ہے؟ یا جلد بازی میں یہ سب ہو رہا ہے؟ اور ہر حادثے کے بعد کئی کئی دن ریلوے لائن بند پڑی رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ کو ئی انجن ہی فارغ نہیں ہوتا کہ فوراً مدد کے لیے پہنچ جائے۔ چلیے، عمران خاں صاحب خوش ہیں کہ انہیں نئی نئی ریل گاڑیوں کی ”مہورت‘‘ کا موقع مل رہا ہے۔ مہورت کا بھی موقع مل رہا ہے، اور رائل پام کلب کے سلسلے میں کسی اور کی محنت پر مٹھائی بھی مل رہی ہے۔ اب نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ایک بار پھر طاقت کا نشہ یاد آ رہا ہے۔ طاقت کا یہ نشہ اگر کسی ایک شخصیت تک ہی محدود ہو تو کسی حد تک برداشت بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں تو محاورے والا حال ہے کہ ”لنکا سے جو بھی نکلا،وہ نوے گزکا‘‘۔ یہاں تو سارے ہی نوے گز کے ہیں۔ خدا کا شکرہے کہ ہمیں ان میں سے کسی شخصیت سے بھی ملنے کا موقع نہیں ملا۔ویسے بھی محاورہ ہے ”حاکم کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے بچ کے ہی رہنا چا ہیے‘‘۔ اس لئے ہم اپنی تنہائی میں ہی خوش ہیں ۔ ہم نے تو انہیں ٹیلی وژن پر ہی دیکھا ہے۔کیا تکبر،کیسی نخوت اور کیسا غرور ہوتا ہے ان کی باتوں میں۔ ہم تو صرف ان کی ٹیڑھی اور تیکھی نظریں اور ان کے ماتھے پر پڑنے والے بل ہی دیکھتے رہتے ہیں۔اور ہاں،وہ ان کی طنزیہ اور استہزائیہ مسکراہٹ ،جیسے وہ اپنے سامنے بیٹھے شخص کو اتنا حقیر سمجھ رہے ہوں کہ اس کی بات کا جواب دینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہوں۔ اس کے لیے اردو میں ایک لفظ ہے ”لونڈھیار پن‘‘۔ لیکن ہم یہ لفظ استعمال کرکے اپنی زبان خراب کرنا نہیں چاہتے۔ یہ نوجوان ہیں۔ انہیں نئی نئی طاقت ملی ہے۔ اور طاقت کا نشہ بہت جلد سر پر چڑھ جاتا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ میاں، تاریخ بھی پڑھ لیا کرو۔ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ بدلتا رہتا ہے۔ اقبال نے ہی تو کہا ہے” ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ اور یہ تغیر ہی تاریخ ہے ۔اور آخر میں خلیل رام پوری کا ایک شعر،جو سید قاسم جعفری نے بھیجا ہے۔ گرمی بہت ہے آج کھلا رکھ مکان کو ۔۔ اس کی گلی سے رات کو پروائی آئے گی ۔۔ ہم اس پروائی کی امید میں ہی زندہ ہیں۔