ایک تو وہ امریکی، اوپر سے سفارت خانے کا ملٹری اتاشی۔ سگنل توڑ کر گاڑی دو موٹرسائیکل سواروں پر چڑھادی تو کیا ہوا؟ ایک طالب علم جاں بحق دوسرا زخمی ہوگیا تو کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ اسے گرفتار کرکے مقدمہ بنایا جائے گا تو وہ سن لے کہ غلام، آقاؤں کو سزائیں نہیں دیا کرتے۔
ریمنڈ ڈیوس نے بھی تو یہی کیا تھا، بلکہ اس نے تو دو جانیں لی تھیں۔ کیا بگاڑ لیا ہم نے اس کا؟
اسلام آباد کے دامن کوہ چوک پر ہونے والا یہ تازہ واقعہ ہمیں اپنی اوقات یاد دلانے کےلیے کافی ہے۔ ساری دنیا کو قانون کی بالادستی کا درس دینے والے امریکا کے ملٹری اتاشی کرنل جوزف امانویل نے ٹریفک اشارے کی مطلق پرواہ نہ کی۔ سگنل توڑتے وقت اس سے گاڑی کی رفتار کم کرنے کی زحمت تک گوارا نہ ہوئی۔ موٹرسائیکل کو اتنی زور سے ٹکر ماری کہ دونوں سوار اچھل کر دور جاگرے۔
ہر دم انسانی حقوق کا راگ الاپنے والے امریکا کے سفارتی اہلکار کے چہرے پر اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی نہ تو کوئی ندامت تھی نہ کسی پشیمانی کے آثار۔ بلکہ اسے تو جب اس کی گاڑی سمیت تھانہ کوہسار لے جایا گیا تو اس نے وہاں الٹا پولیس سے بدتمیزی کی۔ کوئی عام پاکستانی اپنی پولیس کے سامنے ذرا زبان چلاکر تو دکھائے۔ کیا حشر ہوگا، سب جانتے ہیں۔ لیکن اپنے عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہ دینے والی ہماری پولیس، امریکی سفارتی اہلکار کے سامنے ہاتھ باندھے جی حضوری کی مکمل تصویر بنی کھڑی رہی اور وہ صاحب بہادر آنکھیں دکھاتا، باتیں سناتا دوسری گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ عوام کی جان و مال کے محافظ منہ دیکھتے رہ گئے۔
اسے سفارتی استثنیٰ حاصل تھا۔ چلیے مان لیا۔ مگر انسانی زندگی کی اہمیت تو ساری دنیا کے قوانین، ساری دنیا کے مذاہب میں تسلیم شدہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک قاتل کےلیے سفارتی استثنیٰ کا قانون کس نے بنایا۔ یہ حادثہ نہیں بلکہ سیدھا سیدھا قتل کا کیس ہے۔ سو فیصد غلطی امریکی سفارتی اہلکار کی تھی۔ سگنل توڑ کر کسی پر گاڑی چڑھا دینا اور اس کی جان لے لینا اگر اقدام قتل نہیں تو اسے کیا نام دیا جائے؟ کم از کم حادثہ تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اور پھر جس استثنیٰ کی بات یہاں ہورہی ہے، کیا ایسی کوئی سہولت ہمارے سفارتی اہلکاروں کےلیے بھی امریکا میں ہے؟ اگر کسی کو علم ہو تو ضرور بتائے کیونکہ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ وہ ہمارے وزیراعظم تک کو استثنیٰ نہیں دیتے۔ ایئرپورٹ پرسب کے سامنے ایک عام شہری کی طرح کھڑا کرکے ان کی تلاشی لی جاتی ہے اور مکمل اطمینان کے بعد ہی ان کی گلو خلاصی ہوتی ہے۔ واپس آکر وزیراعظم بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ان کی امریکا میں کوئی بے عزتی نہیں ہوئی؛ بلکہ الٹا انہوں نے ہمیں یہ سبق پڑھانے کی کوشش کی کہ ہمیں دوسرے ملک میں جاکر وہاں کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر ایسا ہے، اور یقیناً ایسا ہی ہے، تو امریکی ہمارے ہاں آکر ہمارے قوانین کا احترام کیوں نہیں کرتے؟
ہماری سیکریٹری خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کرکے اس واقعے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے۔ اب امریکیوں کے نزدیک پاکستان کے احتجاج کی کیا اہمیت ہے؟ اس بارے میں منہ نہ ہی کھلوائیے تو بہتر ہے۔ ہمارے احتجاج کو تو بھارت بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ ایک دن دفتر خارجہ میں اس کے ہائی کمشنر کی طلبی ہوتی ہے تو دوسرے دن پھر وہی ایل او سی پر حملہ اور بے گناہوں کی شہادت۔
بعض میڈیا رپورٹس میں تو یہ بھی آیا ہے کہ امریکی ملٹری اتاثی نشے میں تھا۔ ہوسکتا ہے اس نے شراب نہ پی رکھی ہو، لیکن طاقت کا نشہ بھی کم نہیں ہوتا۔ ایک تو وہ امریکی، دوسرا پاکستان کی سرزمین پر۔ سینہ پھلانے اور گھمنڈ دکھانے کےلیے یہ کافی نہیں کیا؟