بھارتی شہری کلبھوشن کو پاکستان کی ایک فوجی عدالت سے جاسوسی تخریب کاری ،دہشت گردی وغیرہ کے الزامات میں سزائے موت سنائی گئی ۔ بھارتی حکمران طبقہ ابتدا میں تو کلبھوشن سے لاتعلقی کا اظہار کرتا رہا لیکن جب اسے سزائے موت سنائی گئی تو بھارت پاکستان کی طرف سے کلبھوشن پر لگائے گئے الزامات کو غلط کہتا رہا اورکلبھوشن کی سزائے موت کو ختم کرانے کی کوشش کرتا رہا لیکن جب وہ ان کوششوں میں ناکام رہا تو اس نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کی چھوٹی بیٹی ہے، وہ بھی دوسری عدالتوں کی طرح انصاف کرنے سے پہلے دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھتی ہے اور دیکھ سمجھ کر انصاف کرتی ہے۔ حکومت پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ماننے سے انکارکیا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت انصاف کے دائرے میں نہیں آتا لہٰذا پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
کلبھوشن کے حوالے سے میڈیا میں جو خبریں آتی رہی ہیں، ان سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کلبھوشن کی سرگرمیاں مشکوک تھیں اور وہ نام بدل کر پاکستان آتا جاتا رہا ۔اس حوالے سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 70 سالوں سے عدم اعتماد کی فضا قائم ہے اور اس کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اس مسئلے کی وجہ پچھلے 70 سالوں میں تین بڑی جنگوں کے علاوہ ایل او سی اور سرحدی خلاف ورزی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک ہزاروں انسان ہلاک ہوچکے ہیں اور پچھلے کچھ عرصے سے کشمیر میں احتجاج کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک بے شمار جانیں ضایع ہوچکی ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کرنے والوں کو پاکستانی ایجنٹ کہتا ہے اور انھیں گولیوں کا نشانہ بناتا ہے۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں احتجاج اور ہڑتال کرنے والوں کو نہ عدالتوں میں پیش کرکے ان کے جرم کو ثابت کیا جاتا ہے بلکہ انھیں بھارتی فوج اپنی گولیوں کا نشانہ بناکر خود انصاف کردیتی ہے۔ اب تک سیکڑوں کشمیری بھارتی فوج کے انصاف کا نشانہ بن چکے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جو کشمیری بھارتی فوج کی گولیوں سے مارے جا رہے ہیں، ان کے جنازوں میں نہ صرف لاکھوں کشمیری شرکت کرتے ہیں بلکہ جاں بحق ہونے والوں کے جنازوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں اور ان کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر قبرستان لے جایا جاتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی سزائے موت کو روکنے کا حکم دے کر اپنے حساب سے انصاف کا سربلندکردیا ہے لیکن کیا عالمی عدالت انصاف کے اندھے بہرے ججزکشمیر میں ہونے والی قتل و غارت سے ناواقف ہیں،اگر واقف ہیں تو اس حیوانی قتل وغارت کو رکوانے اور مرنے والوں کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کررہے ہیں۔ عدالتی نظام میں فریاد ضروری سمجھی جاتی ہے لیکن اب تو عدالتیں سوموٹو کے ذریعے یعنی فریادی کی فریادکے بغیر ازخود نوٹس لے کر مظلوم کو انصاف دے رہی ہیں۔کلبھوشن کے لیے بھارتی حکومت نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا اورعالمی عدالت انصاف نے ترنت انصاف فراہم کرکے انصاف کا بول بالا کردیا۔
کاش عالمی عدالت انصاف کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں مارے جانے والے کشمیریوں کے حوالے سے سوموٹو ایکشن لیتی اور مظلوموں سے انصاف کرتی تو اس کا بھرم رہ جاتا، اگر عالمی عدالت انصاف کے قانون میں سوموٹوکی گنجائش نہیں ہے تو اقوام متحدہ کے ذریعے یہ گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے۔ ایسی گنجائش نکالی جاتی ہے تو بہت سارے مظلوموں کی دادرسی کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عدالت کا اس حوالے سے غیر جانبدار اور بلاامتیاز فرائض ادا کرنا ضروری ہے لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں محاوروں کے مطابق عدالت اندھی ہوکر انصاف نہیں کرتی بلکہ دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھ کر اور سوالی کی حیثیت دیکھ کر فیصلے کرتی ہے۔
کلبھوشن نے بلوچستان میں تخریب کاری کی، دہشت گردی کی، جاسوسی کی۔ یہ ایسے الزامات ہیں جس کی رائج الوقت قانون میں سزا سزائے موت ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کلبھوشن صرف بھارت ہی کا شہری نہیں بلکہ ہر ملک میں ریاست قومی مفادات کے تحفظ کے لیے بے شمارکلبھوشن پیدا کرتی ہے۔ ان سے یہ کام قومی مفادات اورحب الوطنی کے نام پر لیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے کلبھوشن کی دوسری مجبوری یہ ہے کہ اپنے اور اپنے خاندان کی گزربسر کے لیے پیسہ چاہیے ۔اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر حکومت اپنے کلبھوشنوں کو اس نیک کام کا اس قدر بھاری معاوضہ دیتی ہے کہ کلبھوشن ٹھاٹ کی زندگی گزار سکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جاسوسی، تخریبی کارروائیاں اور دہشت گردی بہت بڑے جرم ہیں جس کی سزا موت ہی ہوتی ہے لیکن کیا ان جرائم کی ترغیب دینے والے مجرم نہیں؟ کلبھوشن بلاشبہ مجرم ہے لیکن بھارتی حکومت کلبھوشن سے بھی بہت بڑی مجرم ہے کیونکہ اس نے بے شمار کلبھوشنوں کو تربیت دے کر کئی ملکوں میں متعین کردیا ہے۔ کیا ہم بھارتی حکومت کو پاکستانی زبان میں ’’سہولت کار‘‘ کہہ سکتے ہیں؟ عالمی عدالت انصاف میں اگر سب بونگے نہیں ہیں بلکہ واقعی منصف ہیں تو ان کی ذمے داری ہے کہ وہ مجرم کے ساتھ ساتھ مجرم کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کریں جس کی ایک مثال بھٹو مرحوم ہے۔