لاہور (ویب ڈیسک) ایک چونکا دینے والی خبر سے صبح کا آغاز ہوا ہے کہ وطن عزیز کے 120 سے زائد اعلیٰ سرکاری افسران نے غیرملکی خواتین سے شادیاں رچا رکھی ہیں۔ سرکاری افسران نہ ہو گئے… ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے ہو گئے‘ جو ”ڈیپوٹیشن‘‘ پر آئے ہوئے ہیں اور حکمرانی اور بوئے سلطانی کے سارے ”چاؤ‘‘ پورے کرکے
نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے ”سسرالی دیس‘‘ واپس چلے جائیں گے۔ ویسے بھی دوہری شہریت کے حامل افسران کے بارے میں یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہو گا کہ ”اچھی پوسٹنگ‘‘ ہو تو یہ پاکستان میں دِکھائی دیتے ہیں‘ اور اگر مرضی کی پوسٹنگ نہ ہو تو ”سسرالی دیس‘‘ چھٹیوں پر چلے جاتے ہیں۔ ناموافق حالات میں اکثر افسران بیرون ملک کورسز، ٹریننگ یا کسی ڈگری پروگرام کی آڑ میں ”جگاڑ‘‘ لگا کر سرکاری خرچ پر غیر ملکی ”سسرال یاترا‘‘ کیلئے چلے جاتے ہیں۔ جیسے ہی حالات موافق ہوتے ہیں‘ واپس آ کر اپنے ”ٹارگٹ‘‘ پر لگ جاتے ہیں یعنی مال بناؤ… مال باہر بھجواؤ… اور پھر باہر جا کر اس مال پر عیش کرو وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اکثر افسران کے پاکستانی اہل و عیال رہتے ہی بیرونِ ملک ہیں اور صاحب خود ان سے ملنے آتے جاتے رہتے ہیں ؎ جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو ۔۔۔ وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن ۔۔۔ خبر یہ ہے کہ مملکتِ خداداد کی دو خواتین افسران سمیت 120 سے زائد اعلیٰ افسران کے ”جیون ساتھی‘‘ غیر ملکی ہیں‘ جبکہ اکثر نے صرف پاکستانی زوجہ پر انحصار کرنے کے بجائے بیرون ملک ایک اور شادی کرکے ”دوہری زوجیت‘‘ حاصل کر رکھی ہے۔ان اعلیٰ افسران کی بیگمات امریکی، روسی، فلپائنی، تھائی، چینی، بھارتی، برطانوی، نائجیرین، اٹالین، کینیڈین، فِن لینڈین، ڈینش، ترکش، جاپانی، جرمنی، ایرانی، لبنانی اور قازقستانی سمیت دیگر ممالک کی شہریت کی حامل ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق اگر کسی سرکاری ملازم نے غیر ملکی خاتون یا مرد سے شادی کرنی ہو تو پہلے متعلقہ صوبے یا وفاق‘ جہاں کا وہ ملازم ہو، سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے‘ ورنہ اس کا یہ عمل ”مس کنڈکٹ‘‘ کے زمرے میں آئے گا‘ اور اس کے خلاف مجاز اتھارٹی انضباطی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود آج تک کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آ سکی۔ گویا نہ کہیں کوئی ”مس کنڈکٹ‘‘ ہوا ہے‘ نہ ہی اس ملک میں کسی مجاز اتھارٹی کا وجود ہے۔ اعلیٰ سرکاری افسران کی غیر ملکی خواتین سے شادیوں کو اگر قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فیصلہ انتہائی اہمیت اور حساس نوعیت کا ہے۔ یہ ماڈرن زمانہ ہے۔ حربے‘ طریقے اور ہتھکنڈے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ صلیبی جنگوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو دوہری شہریت اور دوہری زوجیت کا معاملہ زیادہ مختلف نہیں۔ صرف زمانہ اور طریقہ واردارت بدلا ہے‘باقی سب کچھ کم و بیش ویسا ہی چل رہا ہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر چلایا جا رہا ہے‘ اور لگتا ہے کہ یہ اعلیٰ افسران ”ڈیپوٹیشن‘‘ پر پاکستان آئے ہوئے ہیں اور اپنی باری لگا کر عرصۂ حکمرانی ختم ہونے پر واپس اپنے ”اصل‘‘ کی طرف لوٹ جائیں گے اور اس وطنِ عزیز سے کمائی ہوئی حرام… حلال دولت پر بیرون ملک بیٹھ کر باقی زندگی آرام سے گزاریں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ملک و ملت کے حساس ترین امور چلانے والے اہم ترین عہدوں پر تعینات افسران ہی جب ”بدیسی‘‘ ہوں… ان کی تمام تر وابستگیاں پردیسیوں اور فرنگیوں سے ہوں… تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ع ۔۔ ہر داڑھی میں تنکا ہر آنکھ میں شہتیر ۔۔ دل پھینک‘ مفادات کے مارے اور غیر محفوظ مستقبل کا شکار افسران سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ان کا پاکستان میں ہے ہی کیا؟ ان کے اہل و عیال باہر… ان کی دولت باہر… ان کی وفاداریاں اور دلداریاں باہر… تو یہاں کیا مال سمیٹنے اور حکمرانی کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں؟ انہیں اس ملک سے چلتا کر دینا چاہیے۔ پروٹوکول، مراعات اور ”تام جھام‘‘ کا بوجھ ملکی وسائل پر… اور وابستگیاں پردیسیوں سے۔ ان افسران کو وارننگ اور مہلت دی جانی چاہیے کہ وہ ایک شہریت کا انتخاب کریں۔اکثریت کا انتخاب یقینا پاکستان نہیں ہو گا۔ ایسی صورت میں انہیں ”دیس نکالا‘‘ دے دینا چاہیے۔ وہاں کون سا جی او آر ہو گا‘ جو ان کو وسیع و عریض کوٹھیاں اور ملازمین کی فوج دے گا؟ دیکھتے ہیں وہاں کون سی ”شوفر ڈریون‘‘ کار ان کے اور ان کے بچوں کیلئے ہمہ وقت تیار ہو گی؟ اس کے علاوہ دیگر لامحدود مراعات اور استحقاق کون دے گا؟ وطن عزیز کی قومی سلامتی کے تناظر میں اہم ترین اور فوری فیصلے ناگزیر ہیں۔ لگتا ہے ”ڈیپوٹیشن‘‘ پر آئے ہوئے ان اعلیٰ سرکاری افسران کی رہائش سے لے کر تمام مراعات تک کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان پر ہے اور جب ان کا کام ختم ہو جائے گا‘ تو یہ واپس چلے جائیں گے۔ وطن عزیز سے کمایا ہوا ”دھن‘‘ وہ پہلے ہی مختلف ذرائع سے بیرون ممالک اپنے اہل خانہ کو بھجوا رہے ہیں۔ دل و دماغ بیرون ملک اور صرف جسم پاکستان میں… اور جسم کے ہاتھ وطن عزیز کے وسائل کی جیب پر… اور جسم کے دانت وسائل کی شہ رَگ پر ؎ یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی ۔۔ اس کے تنِ خستہ پہ تو دانت ہیں سب کے ۔۔ یہ امر انتہائی توجہ طلب اور تشویشناک ہے کہشہریت ایکٹ 1951ء کے مطابق پاکستان نے دولت مشترکہ کے 19 ممالک کے ساتھ دوہری شہریت رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے‘ اور ان ممالک کے شہریوں پر لازم نہیں کہ وہ پاکستان کی شہریت لیتے وقت اپنے ملک کی شہریت ترک کریں‘ جبکہ دیگر ممالک کے تمام لوگوں پر لازم ہے کہ وہ پاکستانی شہریت لیتے وقت اپنے آبائی ملک کی شہریت ترک کریں گے‘ تبھی انہیں پاکستانی شہریت ملے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں اب تک اس معاملہ پر پیش رفت کیوں نہ ہو سکی؟ یہ معمہ تاحال حل طلب ہے۔ اہم سرکاری اور قومی اہمیت کے حامل عہدوں پر براجمان اعلیٰ افسران میں دوہری شہریت اور غیر ملکی خواتین سے شادیوں کا رجحان دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ اکثر افسران اپنی تنخواہ سے کئی سو گنا زیادہ رقوم بیرون ملک اپنے اہل و عیال کو بہ آسانی بھجوا دیتے ہیں‘ جبکہ اپنی نجی محفلوں میں وہ کھلے عام یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا‘ بس ریٹائرمنٹ کا انتظار ہے… ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات اور واجبات ملتے ہی مستقل سکونت بیرون ملک اختیار کر لیں گے۔ جبکہ اپنے مخصوص مقاصد اور اہداف کے حصول میں ان کے سرکاری اختیارات اور پوزیشن یقینا ان کی بھرپور مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اعلیٰ حکام میں ریٹائرمنٹ کے بعد یا دورانِ ملازمت ہی خیرباد کہہ کر بیرون ممالک مستقل سکونت اختیار کرنے کا رجحان شدت اختیار کر چکا ہے اور اس کا باقاعدہ سروے کروایا جائے تو حاصل ہونے والے اعداد و شمار یقینا قابل فکر اور چونکا دینے والے ہوں گے۔ ماضی قریب میں ہی اہم ترین اور حساس عہدوں سے سبکدوش ہونے والی شخصیات وطن عزیز کے بجائے بیرون ممالک میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں‘ جو قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم ہے اور مجاز اتھارٹیز اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے بجائے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ ان کے بیرون ملک جانے اور وہاں سکونت اختیار کرنے کے حوالے سے قوانین اور ضابطے موجود ہیں‘ مگر وہ شخصیات اتنی بااَثر اور طاقتور ہیں کہ قانون اور ضابطے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘ اور مجاز اتھارٹیز اس شرمناک حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور اکثر کیسز میں تو وہ ”چوروں کا چوروں کو‘‘ تحفظ دینے کی روایت پر کاربند ہیں۔ ویسے بھی ہماری سیاسی اشرافیہ اس ”کارِ بد‘‘ میں اعلیٰ سرکاری افسران کے شانہ بشانہ ہے ؎ آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے ۔۔ تقدیر اُمم سو گئی طاؤس پہ آ کر۔