کراچی کی مقامی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں سابق بینکر اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی تصور کیے جانے والے حسین لوائی کے جسمانی ریمانڈ میں 14 جولائی تک توسیع کرتے ہوئے انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کردیا۔
منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار حسین حسین لوائی اور طحٰہ رضا کو کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں پیش کیا گیا، اس دوران ملزمان کو ہتھکڑی میں پیش کیے جانے پر ملزمان کے وکلاء نے اعتراض کیا۔
ملزمان کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے موکل کو اس طرح پیش کرکے بدنام کیا جارہا ہے، سمٹ بینک سے لوگ کروڑوں روپے نکال کر جارہے ہیں۔
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ملزم رئیس مما کو بھی بغیر ہتھکڑی کے عدالت میں پیش کیا جارہا جبکہ ان کے موکل کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی عادی مجرم نہیں ہیں جوہتھکڑیاں لگاکرلایا جارہا ہے، یہ بزرگ ہے یہ بھاگ نہیں سکتے، ہم اس بات کی ضمانت دیتے ہیں۔
دوران سماعت کیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے کہا گیا کہ ملزمان سے مزید تفیش کرنے ہے، کئی بوگس اکاؤنٹس کی اکاؤنٹس کی تفتیش کرنی ہے، لہٰذا ان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی جائے۔
اس پر حسین لوائی کی ضمانت کا معاملہ دیکھنے والے وکیل حیدر امام کا کہنا تھا کہ ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج تک کچھ نہیں ملا، 2015 میں ختم ہونے والی تحقیقات 2018 میں دوبارہ کھولی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے بینک تباہ ہورہا ہے، لوگوں کا بینکوں پراعتماد ختم ہوجائے گا، 2ہزار سے زائد خاندان،سیکڑوں برانچز تباہ ہوجائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اور بدنیتی کی بنیاد پر دوبارہ تحقیقات کھولی گئیں جبکہ ایف آئی اے کو تضحیک کا اختیار نہیں ہے۔
دوران سماعت ملزم حسین لوائی کے کیس کے مرکزی وکیل شوکت حیات ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ حسین لوائی کو پہلے گرفتار کیا گیا اور شواہد بعد میں اکٹھے کیے جا رہے ہیں، حسین لوائی کے خلاف کوئی ایک شکایت کنندہ تک نہیں ہے۔
شوکت حیات ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جو رقم اکاوئنٹس میں آئی وہ غیر قانونی ذرائع سے حاصل ہوئی، اس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ہماری تفتیش فوائد حاصل کرنے والوں کی مکمل معلومات نہ ہونے کے باعث رکی ہوئی ہے۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ حسین لوائی سے مزید تفتیش کرکے درکار معلومات حاصل کرنا ہے، ہمیں بینکوں کا ریکارڈ نہیں دیا جا رہا۔
عدالت میں سماعت کے دوران تفتیشی افسر کی جانب سے کہا گیا کہ حسین لوائی کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں بھی پیش کرنا ہے۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ حسین لوائی کو آج شام اسلام آباد لے جایا جائے گا۔
دوران سماعت ایف آئی اے کی جانب سے ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کی گئی، جسے منظور کرتے ہوئے انہیں 14 جولائی تک جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔
بعد ازاں سماعت کے بعد وکیل شوکت حیات نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ حسین لوائی کے ریمانڈ کے لیے دوبارہ درخواست کی جس کی ہم نے مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقات بند ہونے کے بعد دوبارہ کیوں کھولا جارہا ہے، سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی بینک کا صدر اکاؤنٹ خود نہیں کھولتا۔
ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے عدالت کو واضح نہیں کیا کہ تحقیقات کیا کی اور کیا کر رہے ہیں۔
شوکت حیات کا کہنا تھا کہ سمٹ بینک کے لوگ اپنے اکائونٹ سے پیسے واپس نکال رہے ہیں، بینک کا دیوالیہ ہورہا ہے، اس کی بنیاد پر دیگر بینکنگ پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وکیل حیدر امام رضوی رواں ہفتے حسین لوائی کی درخواست ضمانت جمع کرائیں گے۔
درخواست ضمانت ملزم حسین لوائی کو جیل بھیجنے کے بعد لگائی جائے گی۔
خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔
بعد ازاں 7 جولائی کو حسین لوائی اور طحٰہ رضا کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں 11 جولائی تک ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔
حسین لوائی و دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر کے اہم مندرجات
یاد رہے کہ حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔
ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ہے کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔
ایف آئی آر میں انور مجید کی کمپنیوں کا تذکرہ بھی ہے جبکہ ابتدائی طور پر 10 ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں چیئرمین سمٹ بینک نصیر عبداللہ لوتھا، انور مجید، نزلی مجید، نمرہ مجید، عبدالغنی مجید، اسلم مسعود، محمد عارف خان، نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ راشدی، طٰحٰہ رضا نامزد ہیں۔
ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کردیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد/ کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کرلی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی۔**