اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار نگراں حکومت کے حوالے کرنے سے قبل چھٹی مردم شماری کے نتائج کا باضابطہ اعلان کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ گزشتہ برس مئی میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کا اعلان کرنے کی حتمی منظوری مشرکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں دی جائے گی۔ اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ سی سی آئی کا اجلاس 14 مئی کو متوقع تھا لیکن قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے باعث ملتوی کردیا گیا تھا۔
عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ برس اگست میں جاری کیے گئے عبوری نتائج کے مطابق ملک کی کل آبادی 20 کروڑ 7 لاکھ 77 ہزار ہے جبکہ اضافے کی شرح 2.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آبادی کی تعداد کے حوالے سے عبوری اور حتمی نتائج میں زیادہ سے زیادہ 60 ہزار کا فرق ہوسکتا ہے۔ البتہ حتمی نتائج کے 2 اہم نکات ایسے ہیں جو مستقبل کے سیاسی معاملات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں مثلاً سندھ کے شہری علاقوں میں سندھی بولنے والوں کی آبادی میں گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اس میں اضافے کی شرح بھی سندھ میں بسنے والی دیگر قومیتوں کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔
اسی طرح بلوچستان میں بھی آبادی میں خاصی تبدیلی دیکھنے میں آئی جس میں بلوچ اور پشتون قوم کی آبادی کا فرق اب ایک فیصد سے بھی کم ہوگیا ہے، جو پچھلے 20 برس کے دوران پشتون آبادی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ حتمی نتائج میں زبان مذہب، علاقائی ترقی، صوبائی، ضلعی اور مقامی کونسل کی بنیاد پر کی گئی مردم شماری اور ان میں اضافے کی شرح اور حتمی تعداد شامل ہوگی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ محکمہ شماریات کی گورننگ باڈی نے خاص طور پر وزیراعظم کو سفارش پیش کی کہ تیسرے فریق کے ذریعے مردم شماری کے نتائج کی توثیق کرانا اب قابل عمل نہیں کیونکہ اس مردم شماری کے عمل کو سرانجام دیے ہوئے خاصہ وقت گزر چکا ہے، جو 15 مارچ 2017 سے شروع ہو کر 25 مئی 2017 تک جاری رہی تھی۔
واضح رہے بین الاقوامی معیار کے مطابق مردم شماری کا عمل مکمل ہونے کے بعد 30 دن سے دو ماہ کے اندر اس حوالے سے سروے اور ان کی توثیق کی جاتی ہے۔ انہی وجوہات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے تجویز دی کہ ایک سال گزرنے کے بعد اب مردم شماری کے حتمی نتائج کو عوام کے لیے پیش کردیا جانا چاہیے اور اس کے مواد تک محقیقن، متعلقہ اداروں اور اعداد و شمار کاحساب کرنے والوں کو رسائی فراہم کردینی چاہیے، وزیراعظم نے اس معاملے کو مزید غور کے لیے سی سی آئی کے اجلاس میں پیش کرنے کے احکامات دیے۔
اس ضمن میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ تیسرے فریق کی جانب سے بعداز مردم شماری سروے کے ذریعے کیے گئے آڈٹ کے عمل اور اس حوالے سے شرائط پر عملدرآمد کو انجام دینا ممکن نہیں کیونکہ عام انتخابات میں 2 ماہ کا عرصہ رہ گیا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل سی سی آئی کی منظوری کے بعد حکومت کی جانب سے مردم شماری کے عبوری نتائج کا اعلان کیا جاچکا ہے جس کے تحت ملکی آبادی 2.4 فیصد سالانہ کی شرح اضافے کے ساتھ 20 کروڑ 7 لاکھ 77 ہزار ہوچکی ہے۔
اس طرح 1998 میں ہونے والی مردم شماری کے مقابلے میں آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، اس میں سب سے زیادہ اضافہ اسلام آباد میں 4.91 کی شرح کے ساتھ ہوا، جبکہ بلوچستان میں 3.37 فیصد، خیبر پختونخواہ میں 2.89 فیصد، سندھ 2.41 فیصد، اور پنجاب میں 2.31 فیصد کی شرح سے آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ خیال رہے کہ سی سی آئی کے گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے اجلاس میں صوبوں کے تحفظات کے پیش نظر تیسرے فریق کے ذریعے مردم شماری کی توثیق کرانے کے فیصلہ کیا گیا تھا، جس سے مکانات کے شمار میں ایک سے 5 فصد تک اضافہ متوقع تھا۔ تاہم سیاسی اور بیروکریسی بیچیدگیوں کے سبب مردم شماری کے آڈٹ کا عمل اب تک نہ کیا جاسکا۔