لندن (ویب ڈیسک) سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں ایک جوڑا دنیا کے ان اولین لوگوں میں شامل ہے جنھوں نے مردوں کے ہارمونز پر اثر انداز ہونے والا مانع حمل کا طریقہ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔انتیس سالہ جیمز اورز اور 27 سالہ ڈینا بارڈسلے، یونیورسٹی آف اینڈنبرا کی اس تحقیق میں شامل ہیں جس میں ساڑھے چار سو جوڑے اگلے بارہ ماہ تک تجرباتی طور پر حمل کو روکنے کے لیے صرف ‘ہارمون جیل’ ہی استعمال کریں گے۔یہ خاص قسم کی ’جیل‘ یا لُعاب جو پروجیسٹرون اور ٹیسٹوسٹرون کو ملا کر بنایا گیا ہے۔پروجیسٹرون مادہ تولید کا بننا کم کر دیتا ہے جبکہ ٹیسٹوسٹرون اس مادے کی کمی کا ازالہ کر دیتا ہے۔توقع یہ کی جا رہی ہے کہ لوگ مانع حمل کے لیے خواتین کی جانب سے لی جانے والی گولیوں کی بجائے اس لُعاب پر بھی انحصار کریں گے جو مردوں کو استعمال کرنا ہوگا۔بی بی سی ریڈیو فائیو لائیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے جیمز نے وضاحت کی کہ انھوں نے پچاس پی کے ایک سکے کے برابر جیل ٹوتھ پیسٹ کے جیسی ٹیوب سے نکالا اور یہ جیل اپنے کندھے اور کندھے کی ہڈی پر لگایا اور اس کو خشک ہونے میں تین سے چار سیکنڈ ہی لگے۔وہ بتاتے ہیں ’میں نے دوسرے کندھے پر یہ ہی کیا اور اس کے بعد قمیض پہن کر اپنے روزمرہ کے معمول میں لگ گیا۔‘جیمز اس لُعاب کو اس سال فروری سے استعمال کر رہے ہیں لیکن انھوں نے ایک ہفتہ قبل ہی اسے مانع حمل کے واحد طریقے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس کا ایک اضافی اثر معمول سے زیادہ شہوت کی صورت‘ میں ہوا ہے لیکن اس کے کوئی منفی اثرات سامنے نہیں آئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ انھیں اپنے مزاج میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی ہے، کمر پر کچھ داغ آ گئے تھے جو اب صاف ہو رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا وزن کچھ بڑھ گیا ہے ’لیکن اگر سچ پوچھیں تو اس کی وجہ شاید بیئر پینے کی کثرت ہے۔’انھوں نے کہا کہ اس تجربے میں شمولیت کی وجہ طبی فائدوں کے علاوہ اور بھی ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس کا مثبت پہلو ان کے لیے یہ ہے کہ وہ مانع حمل کی پوری بحث کو بدلنے کا حصہ بن گئے ہیں۔’اب میرے ساتھ کام کرنے والے میرے پاس آتے ہیں اور اس لُعاب کے بارے میں مجھ سے طرح طرح کے سوال کرتے ہیں۔’انھوں نے کہا کہ ‘مجھے اس بارے میں پورا یقین ہو چلا ہے کہ یہ مردانہ مانع حمل یا کوئی دوسری ایسی چیز جو مردوں کے لیے ہو جلد دستیاب ہو گی۔مانچسٹر یونیورسٹی میں برطانیہ کے ادراۂ برائے صحت این ایچ ایس ٹرسٹ میں تولیدی ادویات کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر شیرل فٹزگیرالڈ کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہونے میں ابھی چند برس لگیں گے۔انھوں نے کہا کہ اس تجربے میں یہ جیل یا لُعاب استعمال کرنے والے سینکڑوں مردوں کا بڑے غور سے معائنہ کیا جا رہا ہے کہ یہ طبی لحاظ سے محفوظ، مؤثر اور قابل برداشت ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد اس سے بڑے پیمانے پر اس کا تجربہ کیا جائے گا جس میں کم از کم مزید دس سال لگ سکتے ہیں۔یہ تجربہ جیمز کی پارٹنر ڈیانا کے لیے بھی سود مند ثابت ہوا ہے۔ ڈیانا کا کہنا ہے کہ انھوں نے سولہ سال کی عمر سے ہارمونل مانع حمل استعمال کرنا شروع کر دی تھیں اور اس جیل کی وجہ سے اب ایک سال تک تو ان کی اس سے جان چھوٹی رہے گی۔انھوں نے کہا کہ مردوں کو یہ موقع دینے سے ہم خواتین پر سے ایک طرح کا بوجھ کم کر رہے ہیں اور مردوں کو مانع حمل کے اپنے طریقے استعمال کرنے کا موقع مل جائے گا۔