counter easy hit

قومی ٹیسٹ ٹیم کے تجرباتی سفر کا حوصلہ افزا آغاز

گزشتہ سال یواے ای کی سازگار کنڈیشنز میں پاکستان ٹیم آئی لینڈرز کا شکار بنی تو مصباح الحق اور یونس خان کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔

نوجوان کھلاڑیوں پر انحصار کرنے پر مجبور نوآموز کپتان سرفراز احمد کی مشکلات میں اضافہ کے خدشات ہر کوئی محسوس کررہا تھا،گرچہ کنڈیشنز سے ہم آہنگی کیلئے پاکستانی کرکٹرز Experienced journey of the National Test team encouraged startقبل از وقت ہی انگلینڈ پہنچ گئے تھے،ٹور میچز میں بیٹنگ کی کارکردگی میں تسلسل کی کمی بھی کھٹکتی رہی،بولرز میں بھی زیادہ کاٹ نظر نہیں آرہی تھی۔

آئرلینڈ کی تاریخ کے اولین ٹیسٹ میں پاکستان کو کامیابی ضرور حاصل ہوئی لیکن پہلی اننگز میں بہتر مجموعے کے لئے مہمان ٹیم کو فہیم اشرف اور شاداب خان کا سہارا لینا پڑا، محمد عباس کی بولنگ اور دوسری اننگز میں امام الحق کی بیٹنگ نے لاج رکھ لی، بابر اعظم بھی طویل عرصہ بعد ففٹی بناکر اس مشن میں حصہ دار بنے،لیسٹر کے خلاف میچ میں اظہر علی کی فارم میں واپسی نے ٹاپ آرڈر کے استحکام کی امید دلائی تو بولرز کوئی متاثر کن کارکردگی نہ دکھاسکے۔

اس صورتحال میں لارڈز کے تاریخی میدان پر ٹیسٹ میچ میں  انگلینڈ کا سامنا ایک مشکل امتحان لگ رہا تھا، ہوم کنڈیشنز میں میزبان بیٹنگ کے خلاف انتہائی نپی تلی بولنگ درکار اور پاکستان کی امیدیں محمد عامر سے وابستہ تھیں لیکن آئرلینڈ کے خلاف میچ میں ہی پیسر کے فٹنس مسائل نے سر اٹھالیا،راحت علی کی بولنگ میں دم خم نظر نہ آنے کے بعدحسن علی کو شامل کرنے کا پلان بنا تو ان کے ہاتھ کی انجری نے شکوک پیدا کردیئے۔

آخر کار میچ کے روز ہی ان کی فٹنس تسلی بخش قرار دیتے ہوئے پلیئنگ الیون کا حصہ بنایا گیا،پیسر نے اپنا انتخاب درست ثابت کرتے ہوئے ابتدا میں ہی کاری وار کرتے ہوئے تجربہ کار انگلش بیٹنگ لائن کی کمر توڑنے میں اہم کردار ادا کیا،محمد عباس نے بھی آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ کی فارم برقرار رکھتے ہوئے ثابت کیا کہ پیس کم بھی ہوتو بہتر مہارت اور حاضر دماغی سے زیادہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

محمد عامر نے گرچہ وکٹ تو ایک ہی حاصل کی لیکن بڑی اننگز کھیلنے کے موڈ میں نظر آنے والے الیسٹر کک کو ایک شاندار گیند پر بولڈ کرکے مبصرین سے بھرپور داد سمیٹی، ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے واحد بیٹسمین کو اس موقع پر میدان بدر نہ کیا جاتا تو انگلینڈ کی بساط 184پر لپیٹنا ممکن نہیں ہوتا،اس کامیاب کوشش میں جہاں پیسرز نے اپنی لائن اور لینتھ کو مقامی کنڈیشز کے لئے موزوں رکھا، وہاں فیلڈرز نے بھی کوئی کیچ نہیں چھوڑا۔

فہیم اشرف کی گیند پر امپائر نے انگلی کھڑی کردی ہوتی تو الیسٹر کک کی جلد رخصتی اور میزبان ٹیم کی اننگز مزید تباہی کا شکار ہوجاتی،گرچہ گیند آف سٹمپ پر لگنے کے باوجود قانون کے مطابق ریویو میں انہیں آؤٹ نہیں دیا جاسکتا تھا لیکن امپائرکا فیصلہ بولر کے حق میں ہوتا تو انگلینڈکو بھی تھرڈ امپائر سے رجوع کرنے میں مایوسی ہوتی۔

ایل بی ڈبلیو پر فیلڈ امپائر کے فیصلے  اور ریویو میں پرکھ کے لئے الگ الگ قواعد رکھنے پر شائقین ایک عرصہ سے سوالات اٹھارہے ہیں لیکن آئی سی سی فی الحال اس کی تبدیلی کے لئے غور کرنے کو بھی تیار نہیں،بہرحال پاکستان نے انگلش بیٹسمینوں کو پریشان کرتے ہوئے جوئے روٹ کا سوئنگ کے لئے موزوں کنڈیشنز میں پہلے کھیلنے  کا فیصلہ غلط ثابت کیا تو تبصرے شروع ہوگئے کہ ہوم ٹیم کا یہ حال ہوا ہے تو جیمز اینڈرسن، سٹورٹ براڈ، مارک ووڈ، بین سٹوکس جیسے تجربہ کار پیسرز بیشتر نوجوانوں پر مشتمل مہمان بیٹنگ لائن کیا حال کریں گے۔

اظہر علی اور حارث سہیل کو داد دینا چاہیے کہ امام الحق کی جلد پویلین واپسی کے بعد انہوں نے میزبان ٹیم کے ابتدائی وار جھیل لئے،دونوں نے پیس اور باؤنس کا محتاط انداز میں سامنا کرتے ہوئے  بولرز کا کنڈیشنز سے فائدہ اٹھانے کا خواب پورا نہیں ہونے دیا، کریز پر وقت گزارنے کی وجہ سے میزبان پیسرز غلطیاں کرنے اور رنز دینے پر مجبور ہوئے،بعد ازاں اسد شفیق اور بابر اعظم نے بھی ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہتر مجموعے کی طرف سفر جاری رکھا۔

شاداب خان آئر لینڈ کے خلاف ٹیسٹ کے بعد انگلینڈ میں بھی اہم موقع پر ففٹی بنانے میں کامیاب ہوئے،فہیم اشرف نے بھی کریز پر قیام کی اچھی کوشش کرتے ہوئے اپنا حصہ ڈالا، بابر اعظم بہترین فارم میں نظر آرہے تھے لیکن ایک باؤنسر کلائی پر لگنے کی وجہ سے ان کے نہ صرف سنچری کی جانب بڑھتے قدم رک گئے بلکہ انگلینڈ کے خلاف سیریز سے بھی باہر ہوگئے، ون ڈے کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے نوجوان بیٹسمین ٹیسٹ میچز رنگ نہیں جماسکے تھے اس کے باوجود ٹیم مینجمنٹ نے ان کی صلاحیتوں پر اعتماد برقرار رکھا۔

آئرلینڈ کے بعد انگلینڈ میں بھی ان کا ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آنے لگا تھا کہ بدقسمتی سے انجرڈ ہوگئے،یہ صورتحال نہ صرف بابر اعظم بلکہ پاکستان  ٹیم کے لئے بھی مایوس کن ہے،دوسری اننگز میں بھی سرفراز الیون کو ان کی ضرورت پڑسکتی ہے لیکن اب مختلف پلان کے ساتھ میدان میں اترنا پڑسکتا ہے، بنچ پاور میں اس وقت عثمان صلاح الدین موجود ہیں۔

نوجوان بیٹسمین لیسٹر شائر کے خلاف ٹور میچ میں اچھی فارم  میں نظر آئے تھے،سعد علی گرچہ متاثر نہیں کرسکے لیکن ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگاکر ہی قومی سکواڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، دوسرے ٹیسٹ میں ان میں سے کسی ایک کو موقع مل سکتا ہے،دوسری صورت مں فخرزمان  کو ٹاپ آرڈر میں کھلاکر بابر اعظم کا خلاپرکرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں ایک اچھا سیشن کھیل کسی بھی ٹیم کے حق میں پانسہ پلٹ سکتا ہے،لارڈز میں بھی نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، تاہم پاکستان کے لئے مثبت پہلو سینئرز کے ساتھ جونیئرز کا بھی چیلنج قبول کرنا ہے، گرچہ کوئی بیٹسمین پہلی اننگز میں سنچری نہیں بناسکا لیکن اظہرعلی، اسد شفیق، بابر اعظم اور شاداب خان کی ففٹیز، حارث سہیل اور فہیم اشرف کی مزاحمت نے بہتر مجموعہ ترتیب دینے میں مدد دی۔

تشکیل نو کے لئے تجرباتی عمل سے گزرتی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کا مشکل کنڈیشنز میں اعتماد مستقبل کے لئے خوش آئند ہے، نئے ٹیلنٹ میں نکھار کے آثار نمایاں ہونا پی سی بی،سلیکٹرز، مینجمنٹ اور شائقین سب کے لئے باعث اطمینان ہے۔