counter easy hit

مہارت

Father Scolding His Child

Father Scolding His Child

تحریر : شاہد شکیل
آج کل وہ زمانہ نہیں رہا جب بچے والدین کی نصیحتوں پر آنکھیں موند کر چوں چراں عمل کرتے تھے کیونکہ وقت ،حالات، ترقی ،ٹیکنالوجی ، خواہشات اور مادہ پرستی نے دنیا بھر میں تقریباً ہر انسان کو تبدیل ہی نہیں کیا بلکہ ایک ایسے حصار میں قید کر دیا ہے جہاں اسے صرف اپنے مفاد اور خواہش کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے بچے بھی اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پر چل نکلے ہیں ،بچوں کا آئیڈیل ان کے والدین ہوتے ہیں لیکن اگر والدین مادہ پرستی میں کھو کر بچوں پر توجہ نہیں دے پاتے تو منفی نتائج سے واسطہ پڑنا کوئی انہونی بات نہیں کہ عام طور پر کہا جاتا ہے بچہ بگڑ گیا ہے یا تعلیم کی بجائے انٹر ٹینمنٹ کی طرف راغب ہو چکا ہے وغیرہ۔آج کے بچے والدین سے چار قدم آگے ہیں اور ان کی کسی بھی نصیحت کو سیریس نہیں لیتے بلکہ کئی بچے تو ان کی غیر موجودگی میں انہیں پاگل ، بے وقوف اور جاہل تصور کرتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے؟شاید والدین کی پرورش میں کچھ کمی رہ جاتی ہے،یا بچے میں صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ والدین کی نصیحت پر عمل کرے یا ٹیکنالوجی مثلاً سوشل میڈیا اثر انداز ہوتا ہے؟۔بچوں کی پرورش کرنا نہایت کٹھن اور صبر آزما فرض ہے ،کئی والدین اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بچوں کو ڈھال بناتے ہیں جو سراسر غلط ہے ظاہر ہے جو طریقہ یا رویہ والدین بچوں کے ساتھ روا رکھیں گے اس کے نتائج بھی انہیں ہی بھگتنے پڑیں گے۔

کیونکہ بچوں کی پرورش محض کھانے پینے یا اوڑھنے بچھونے تک ہی محدود نہیں بلکہ انہیں دنیاوی چیزوں سے باخبر رکھنے کیلئے مہارت کے ساتھ ہینڈل کرنا اہم اور لازمی ہے۔بچے جتنے معصوم اور بے ضرر ہوتے ہیں اتنے ہی ضدی اور خود سر بھی وہ والدین کی تمام باتیں اور نصیحتیں سنتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے اور ایسی صورت حال میں اکثر والدین پیار کی بجائے مار کا فارمولا استعمال کرتے ہیں جو بچوں کے مستقبل کے لئے مزید خطرناک ثابت ہوتا ہے ،سب جانتے ہیں کہ بچے والدین کی ہدایات کو سننے کے بعد یکسر نظر انداز کرنے میں مشہور ہیں وہ اتنے سمجھ دار ہیں کہ اپنی من مانی کرنے میں والدین کے صبر کا امتحان لیتے ہیں کہ دیکھنا یہ ہے کون جیتے گا ایسی صورت حال میں کون سا فارمولا استعمال کیا جائے مار یا پیار؟۔چند مختلف لیکن نہایت آسان اور عام سی چالوں سے والدین اپنے بچوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔

والدین اور بچوں کی کمیو نیکیشن یعنی مکالمات ،جملوں کی ادائیگی ،رویہ اور چہرے کی ایکسپریشن پر برطانوی ہائپ نوٹسٹ ایلیسیا ایٹن جو این ایل پی نیورو لسانی پروگرامنگ کی ایکسپرٹ بھی ہیں کا کہنا ہے والدین اور بچوں میں دوران گفتگو جملوں کی ادائیگی اہم کردار ادا کرتی ہے والدین دوران گفتگو یعنی جملوں کی ساخت و اطوار کو تبدیل کرنے سے بچوں کو اپنی من مانی کرنے سے روک سکتے ہیں یا انہیں مخصوص عوامل کی طرف راغب کرنے سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں مثلاً والدین کے مخصوص طرز کے جملوں کی ادائیگی سے بچے کبھی انکار نہیں کریں گے۔ایلیسیا ایٹن نے اپنی کتاب ۔ورڈز دیٹ ورک ۔ہاؤ ٹو گیٹ ٹو ڈو آلموسٹ اینی تھنگ میں وضاحت کی ہے کہ والدین اپنے جملوں کی ادائیگی ،مثبت رویئے اور چہرے کے ایکسپریشن اتار چڑھاؤ سے بچوں کی نہ کو ہاں میں بدل سکتے ہیں۔

بلکہ چند چالوں سے والدین بچوں میں تبدیلی لا سکتے ہیںمثلاً بچوں سے کبھی یہ نہ کہا جائے کہ ” نہیں ایسے نہیں ”اس سے مسابقت رکھتے الفاظ یا جملے جو کہ بظاہر مثبت ہوتے ہیں لیکن بچے اکثر انہیں منفی نظر سے دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں کیونکہ جملوں کی ادائیگی نہایت اہم ہوتی ہے،کیا یہ ضروری ہے کہ آپ نے اتنی گندگی پھیلائی ہے اپنا کمرہ درست کریں ایسے الفاظ بچوں کو متاثر کرتے ہیں ،مثبت الفاظ میں ایسے جملے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں کہ آپ اپنے کمرے کو درست حالت میں لائیں ہم آپ کی مدد کریں گے ،یہ الفاظ سن کر بچوں میں جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہیں کرتے اور نہ دباؤ میں آتے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ والدین کے ساتھ مل جل کر مختصر مدت میں کمرا درست ہو جائے گا،رضاکارانہ طور پر والدین اپنے بچوں کو تمام عوامل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے اور اپنی بات منوانے کیلئے ہمیشہ تحمل مزاجی اور برداشت کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے گرویدہ بنا سکتے ہیں ،لیکن اکثر والدین اپنے ذاتی مسائل میں الجھ کر بچوں پر توجہ دینے کی بجائے فوری طور پر اپنی کہی بات کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں اور بچوں سے فوری نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں مثلاً ہم جو کہہ رہے ہیں وہی درست ہے۔

انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جلد بازی میں کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو اس کا ذمہ دار وہ خود نہیں بلکہ بچوں کو ٹھہرائیں گے اور الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اور ایسے مکالمات سے بچے شدید پریشان اور خوفزدہ ہو جاتے ہیں ،عام طور پر ناشتہ کرتے وقت والدین جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بچوں پر دھونس جماتے ہوئے انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ اگر فوری ناشتہ ختم نہ کیا تو ہم لیٹ ہو جائیں گے وغیرہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت حال میں بچے زبردستی اور جلد بازی میں ناشتہ کرتے ہیں جو انکی صحت کے لئے مضر ہے بجائے مشین جیسا رویہ اختیار کرنے کے وقت کی پابندی کی جائے ،والدین کے فرائض میں شامل ہے کہ تمام روزمرہ معاملات کو وقت کی پابندی کرتے ہوئے ہینڈل کریں اور کسی حالت میں بھی بچوں کو موردء الزام نہ ٹھہرایا جائے۔

کھانے پینے کے علاوہ بچوں کے ساتھ پہننے اوڑھنے میں بھی زور زبردستی درست نہیں انہیں بااختیار بنانے کیلئے ان کی مرضی جاننا بھی ضروری ہے نہ کہ اپنی مرضی سے کھلایا پلایا اور پہنایا جائے کیونکہ ایک مخصوص عمر میں آکر وہ شدید دباؤ کا شکار ہوتے اور اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتے ہیں کبھی تو یہاں تک بھی نوبت آجاتی ہے کہ وہ والدین کی مرضی کے خلاف ایک قدم تک نہیں اٹھا سکتے اور یہ سوچتے ہیں کہ سب کچھ والدین کی مرضی سے کرتا ہوں کیا میں انسان نہیں کیا میری اپنی کوئی مرضی یا خواہش نہیں کیوں یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ مجھے آج زیادہ بھوک نہیں ہے زیادہ کھانے سے قے بھی ہو سکتی ہے یا کیوں انکی مرضی کے ڈریس پہنوں وغیرہ۔ایلیسیا ایٹن کا کہنا ہے چند الفاظ ” اگر،، یا” بہت جلد،، سے شروعات کی جائے تو مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں کیونکہ اگر اور جب یا بہت جلد جیسے الفاظ میں میس میرائزم جیسا اثر ہے اور بچے ایسے الفاظ فوری ذہن نشین کرتے ہیں مثلاً ”جیسے ہی آپ نے اپنا ہوم ورک ختم کیا ہم شاپنگ کرنے جائیں گے، ،نہ کہ یہ کہنا درست ہوگا جلدی سے ہوم ورک ختم کرو تاکہ شاپنگ کرنے جائیں ورنہ دیر ہو جائے گی یا جب آپ نے اپنا کمرا درست کر لیا تو کھانا کھائیں گے وغیرہ۔

کیونکہ ایسے الفاظ میں نرمی اور عاجزی کے علاوہ ادھورے کاموں کو مکمل کرنے میں حکم نما گزارش شامل ہوتی ہے اور ایسے الفاظ سننے کے بعد بچے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہیں۔ دوسری چال یا ٹرِک کے استعمال سے یعنی پیشگی شکریہ ادا کرنے سے بچے ضد نہیں کریں گے کیونکہ عام طور پر ہم سب کسی دوسرے فرد سے کچھ حاصل کرنے کے بعد شکریہ ادا کرتے ہیں اور یہی شکریہ خاص طور پر بچوں کے لئے بہت معنی رکھتا ہے پیشگی شکریہ ادا کرنے پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں ،مثلاً آپ بچوں سے مکالموں یا جملوں کی ادائیگی کے دوران شکریہ کا لفظ ادا کریں گے تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائیں گے اور آپ کی گزارش پر فوری عمل کریں گے جیسے کہ پلیز ٹی وی آف کر دیں ،پلیز پہلے ہاتھ دھو لیں یا کھیل کود میں مصروف ہوں تو انہیں یہ کہنا مناسب ہوتا ہے کہ اب کھیل بند کریں اور کھانے کی میز پر آجائیں شکریہ،ان جملوں سے ان کے اندر احساس پیدا ہو گا کہ ہم سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ،میرے والدین یہ سب کچھ میری بھلائی کیلئے کہہ رہے ہیں اور حکم کی بجائے گزارش کر رہے ہیں لیکن ضروری یہ ہے کہ جملوں کی ادائیگی کے دوران لہجہ دھیما اور نرم ہونا چاہئے۔

رویہ درست اور چہرے کا ایکسپریشن کسی بھی قسم کے دباؤ یا الجھن کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ایلیسیا ایٹن کا کہنا ہے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا سب سے اہم بات ہے، عام طور پر بچے دوران ہوم ورک ایسے الفاظ کہتے ہیں کہ یہ سوال میں حل نہیں کر سکتا اور ریاضی کی کتاب ایک کونے میں پھینک دیتے ہیں ،ایسی صورت حال میں ان پر الزامات لگانا یا توہین آمیز رویہ مناسب نہیں بلکہ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ان کا ذہن یا توجہ ہٹانے کے لئے کہ میں یہ نہیں کر سکتا ایسے جملے ادا کئے جائیں شاید آپ سوال سمجھ نہیں پائے یا ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کیلئے کوئی دوسرا راستہ منتخب کریں ،ابتدائی طور پر چند مثالیں دینے اور ضرب یا تقسیم کے سوالوں کو حل کرنے کیلئے انہیں آئیڈیا دیا جا سکتا ہے جس سے آسانی پیدا ہو ۔ اور یہی وہ مہارت کہلاتی ہے جس سے والدین اپنے بچوں کو قائل اور آمادہ کر سکتے ہیں کہ دنیا کا کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔

دوسری طرف ان کے ساتھ مار پیٹ یا زور زبردستی کرنے سے وہ ایک انجانی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں جس سے نہ ان کے مستقبل بلکہ زندگی کی راہوں میں شدید مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں ۔بچوں کے ساتھ پیار محبت ، ہمدردی ،خلوص ،شفقت ،گرم جوشی وغیرہ سے پیش آنے پر وہ تمام کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکتے ہیں اور مثبت رویئے سے وہ تاحیات خوش و خرم رہنے کے ساتھ اپنی ذہانت اور خود اعتمادی سے ہر کام پایہ تکمیل پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوئے کامیابی کی سیڑھیاں طے کر سکتے ہیں۔

Shahid Sakil

Shahid Sakil

تحریر : شاہد شکیل