تحریر : ایم سرور صدیقی
خبر کیا تھی ۔۔دھماکہ تھا پل بھر میں جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھرمیں پھیل گئی، لوگ طرح طرح کے تبصرے کرنے لگے حق اور مخالفت میں دلیلیں دینے والوںکی کمی نہ تھی ۔۔۔ خبر کے مطابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی سیکورٹی سکوارڈ میں تعینات پنجاب پولیس کے ایلیٹ فورس کے اہلکار ملک ممتاز قادری نے اسلام آباد کے F6 سیکٹرمیںواقع کوہسارمارکیٹ میں اس وقت 3گولیاں مارکر ہلاک کردیا جب وہ ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر گاڑی میں بیٹھنے والے تھے ”ملزم”کو موقعہ پر ہی حراست میں لے لیا گیا4جنوری 2011 ء کو اپنے اعترافی بیان میں ملک ممتاز قادری نے بتایا کہ اس نے توہین رسالت ۖ کی پاداش میں گورنر پنجاب سلمان تاثیرکو قتل کیا ہے اور مجھے اس میں کوئی ندامت یا پچھتاوا نہیں۔۔۔ ماضی میں بھارتی وزیر اعظم انداگاندھی اور مصر کے صدر انورالسادات کو بھی ان کے محافظوں نے قتل کردیا تھا ہر قتل کی وجوہات مختلف تھیں ۔۔۔گورنر پنجاب سلمان تاثیرکے قتل کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو ایک روشن خیال مسلمان سمجھتے تھے اور توہین رسالت ۖمیں ترمیم کے زبردست حامی تھے اسی بناء پر ان کا کہنا تھا یہ قانون اللہ کا بنایا ہوا نہیں یہ انسانوںکا بنایا ہوا قانون ہے جس میں تر میم کی جا سکتی ہے ۔۔۔
آسیہ میسح نامی ایک عیسائی خانون نے نبی پاک ۖ کی شان میں گستاخی تھی اس کا جرم عدالت میں ثابت بھی ہو گیا جب اسے سزائے موت کا حکم ہو اسلمان تاثیرنے کہایہ ظلم ہے ۔۔۔ ایک موقعہ پر موصوف نے تحفظ ِ ناموس رسالت ۖ کے قانون کو ایک ٹی وی پروگرام میں کالا قانون قراردیدیا اس بیان کے خلاف کچھ مذہبی جماعتوںنے احتجاجی جلوس نکالے ۔۔۔کچھ نے سلمان تاثیرکے خلافFIRدرج کروانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔۔۔ملک ممتاز قادری کوبچپن سے ہی نماز روزہ سے دلی رغبت تھی اس لئے انہیں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے نظریات و خیالات سن کر گہرا شاک لگا اوروہ قتل کی منصوبہ بندی کرتارہا اس نے ایلیٹ فورس کے سیکورٹی سکوارڈ میں کچھ اہلکاروںکوبھی اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ جب ممتازحسین قادری سلمان تاثیرکو گولیاں ماررہا تھااس وقت پولیس کے دیگر اہلکار چپ چاپ کھڑے رہے کسی نے بھی کوئی مداخلت نہ کی یہ بھی اسے ایک طرح سے ساتھیوںکی خاموش تائید حاصل تھی۔۔۔
راولپنڈی کی دہشت گردی کی عدالت میں اس قتل کے خلاف مقدمہ چلایا گیایکم اکتوبر 2011ء کو عدالت نے ممتاز حسین قادری کو 2 بارسزائے موت اورایک لاکھ جرمانہ کی سزا کا حکم سنایا۔۔۔جس کے خلاف ممتازحسین قادری کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا کو چیلنج کردیا گیا اس کے ساتھ ہی ملک بھر کی مذہبی جماعتوں،علماء کرام،سوشل میڈیا اور دیگر تنظیموں نے ممتازحسین قادری کی سزا کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کااعلان کردیا11فروری2015ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دہشت گردی دفعات کے تحت سزائے موت ختم کردی لیکن فوجداری مقدمہ کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت کا حکم برقراررکھا اس سزا کے خلاف عدالت ِ عظمیٰ میں اپیل کی گئی14 دسمبر2015 ء کو سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیل کو مستردکرتے ہوئے 2مرتبہ سزائے موت کو برقرار رکھنے کا حکم دیدیا صدر ِ مملکت کو رحم کی اپیل کی گئی لیکن یہ بھی مستردکردی گئی جس پرملک ممتازحسین قادری کو اڈیالہ جیل میں تختہ ٔ دار پر لٹکا دیا گیا۔۔۔کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ملک ممتاز قادری قاتل ہے ان کا مؤقف ہے سلمان تاثیر گستاخی کے مرتکب نہیں ہوئے تھے انہوں نے توہین ِ رسالت ۖ نہیں کی تھی صرف اس قانون کو کالا قانون کہا تھا یہ قانون اللہ کا بنایا ہوا قانون نہیں یہ انسانوںکا بنایا ہوا قانون ہے جس میں نظرثانی کی جا سکتی ہے کیونکہ اس قانون کو مذہبی انتہا پسند اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔۔
کر سکتے ہیں ایسے لوگوںکا یہ بھی کہناہے کہ بالفرض سلمان تاثیر گستاخی کے مرتکب ہوئے بھی تھے تو ان کو صفائی کا موقعہ دئیے بغیر قتل کرنا ملک کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتاہے اس سے انتہا پسندی کو فروغ ملے گا ۔۔ اسلام کسی کوماورائے عدالت جان سے ماردینے کے خلاف ہے کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں اس لئے ملک ممتازحسین قادری کو سزائے موت دینے کا فیصلہ درست ہے۔۔ اس کے برعکس کچھ کا کہناہے کہ وہ شہید ہیں کسی بھی شخص کو کسی بھی انداز میں بنی پاک ۖ کی شان میں گستاخی کی اجازت نہیں دی جا سکتی پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس میں شریعت سپریم لاء ہے ایک عاشق ِ رسول ۖ کو سزائے موت دے کر حکومت نے مغرب کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔ ایک مرتبہ عالم ِ اسلام کی ایک جید شخصیت حضرت امام احمد بن حبل نے حکمرانوںکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا” ہمارے اور تمہارے درمیان جنازے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پر تھا”۔۔۔ اسی قول کو ا صول مان لیں تو سلمان تاثیر کے جنازے کا احوال دیکھئے مقتول گورنر کی نماز ِ جنازہ گورنرہائوس لاہورمیں اداکی گئی شرکاء کی تعداد انگلیوںپر گنی جا سکتی تھی حالانکہ ان کا تعلق اس وقت کی حکمران پارٹی سے تھا سلمان تاثیر کا بھرپور سماجی تعلق، درجنوں افرادسے کاروباری شراکت، پارٹی کارکن اور دیگروسائل بھی کام نہ آئے جامع مسجدگورنرہائوس کے امام نے جنازہ پڑھانے سے انکارکردیا، جامع مسجد داتا صاحب کے سرکاری خطیب نے فون سنتے ہی بند کردیا اور باربار رابطہ کرنے پربھی موبائل نہ اٹھایا۔۔۔
کئی علماء کرام کی طرف ہرکارے دوڑائے گئے کوئی آمادہ نہ ہوا۔۔خود پیپلز پارٹی سے وابستہ مولوی صاحبان نے کانوںکو ہاتھ لگا کر” نہ بابا نہ” کا وردکیا اور بھاگ گئے بڑی مشکل سے ایک سرکاری و درباری تنظیم سے وابستہ ایک مولوی صاحب میسر آئے جنہوںنے سلمان تاثیر کی نماز ِ جنازہ پڑھائی پہلی قطار میں اس وقت کے وزیر ِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی،رحمن ملک، میاںخورشید علی قصوری،فاروق ایچ نائیک،راجہ پرویز اشرف جیسی شخصیات کھڑی تھیں۔۔۔گورنرہائوس کی چاردیواری، غیرمعمولی حفاظتی اقدامات اور ہیلی کاپٹر سے فضائی نگرانی۔۔۔ اس کے باوجود سب کے سب خوفزدہ تھے۔۔۔ دوسری جانب ممتازحسین قادری کی نماز ِ جنازہ کے موقعہ پر لیاقت باغ راولپنڈی میں لوگوںنے رات کو ہی ڈیرے ڈال رکھے تھے پورے شہر میں اس روز نہ جانے کہاں سے ہزاروں لاکھوں لوگ امڈ آئے ہرطرف حد ِ نظر لوگوںکا ہجوم۔۔۔ان میں کئی افرادنے سبزپگڑیاں بھی باندھ رکھی تھیں کچھ نے کالے اورسفید عمامے بھی۔۔۔
یہاں بکثرت ننگے سروالے بھی تھے۔۔ ہزاروں ٹوپی والے بھی تھے شلوارقمیض والے بھی پینٹ شرٹ میں ملبوس بھی۔۔۔لمبی داڑھی بھی ہزاروں مضطرب تھے۔۔ ترشی داڑھی والے، مونچھوںوالے اور کلین شیو والے بھی موجود تھے لیاقت باغ میں سنی،بریلوی، اہلحدیث،شیعہ کی تخصیص نہ تھی یہاں صرف مسلمان جمع تھے ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ افراد ایک ایسے عا شق ِ رسول ۖ کے جنازے میں شرکت کیلئے آئے تھے جو حرمت ِ رسول ۖ پر قربان ہوگیا بلاشبہ ملک ممتازحسین قادری کا جنازہ راولپنڈی کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔۔۔جنہوںنے آخری دیدار کیاہے ان کا کہنا تھا ملک ممتازحسین قادری کے چہرے پر بڑا سکون تھا جیسے وہ سورہا ہو ابھی شور سن کر اٹھ جائے گا۔۔۔۔ عالم ِ اسلام کی ایک جید شخصیت حضرت امام احمد بن حبل نے حکمرانوںکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا” ہمارے اور تمہارے درمیان جنازے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پر تھا”۔۔۔ اسی قول کو ا صول مان لیں تو ۔۔۔فیصلہ توہوگیا۔۔۔ نہ ماننے والے ذرا رات کی تنہائی میں یہ کالم پڑھ کر اپنے آپ سے سوال کریں ممتازحسین قادری قاتل تھا یا شہید ۔۔۔ جو فیصلہ ان کا دل کرے اسے تسلیم کرلیں۔
تحریر : ایم سرور صدیقی