لاہور (ویب ڈیسک) یہ سنیں، عمران خان نے پھر فرما دیا ’’اب کسی کو پروڈکشن آرڈر سہولت نہیں ملے گی‘‘ پچھلے کابینہ اجلاس میں ایک لمبی چوڑی غصیلی تقریر فرما کر وزیراعظم نے وزیر قانون سے کہا ’’ایسی قانون سازی کرو، پروڈکشن آرڈر سہولت ہی نہ رہے‘‘، بات تو کمال کی، لیکن اعتبار کون کرے، نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی عمران خان نے ہی کہا تھا ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بناؤں‘‘، پھر شہباز شریف کو کوٹ لکھپت جیل سے نکال کر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا، آگے سنیے، شہباز شریف کو خود ہی پی اے سی کا چیئرمین بناکر پھر خود ہی کہہ دیا ’’ملزم شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنانا تو جمہوریت کے ساتھ مذاق‘‘، واہ صاحب واہ، یہ مذاق کیا کس نے اور پھر ہم نے عمران خان سے یہ بھی سنا ’’آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ لیکن پھر زرداری صاحب کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری ہوگئے، اب عمران خان کہہ رہے ’’آئندہ پروڈکشن آرڈر سہولت کا خاتمہ بالخیر کر دیا جائے‘‘ یوٹرن نہ لیا، ایسا ہو گیا تو یہ ملک و قوم پر احسان، نہ صرف پروڈکشن آرڈر مزے ختم ہونا چاہئیں بلکہ وی آئی پی جیلیں بھی ختم کی جائیں، سب کیلئے ایک طرح کی جیل ہو۔ یہ سنیں، دو تین دن پہلے اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ انٹرویو دیتے وزیراعظم سے سوال ہوا، ٹیکسوں کی بھرمار ہوگئی، اتنے ٹیکس لگا دیئے، کیوں؟ سوال ہوا وزیراعظم سے، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی جھٹ سے بولے ’’کون سا ٹیکس، کوئی ایک نیا ٹیکس بتا دیں جو ہم نے لگایا‘‘ لو کر لو بات، چیئرمین ایف بی آر فرما رہے، ہم نے کوئی ایک ٹیکس لگایا ہو تو بتادیں، کیا بات ہے،، یہ جو 10مہینوں میں 41فیصد سیلز ٹیکس بڑھا دیا، یہ جو 26فیصد انکم ٹیکس بڑھا، یہ جو 10مہینوں میں 12مرتبہ بجلی، گیس، پٹرول، کھادوں، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، یہ جو 42قسم کے اِن ڈائریکٹ ٹیکس دینے والوں کی تنخواہوں پر، بینک سے پیسے نکالنے، جمع کروانے، کوئی شے بیچنے، کچھ خریدنے پر ٹیکس ہی ٹیکس لگ گئے، یہ کیا؟ اسے ٹیکس نہ کہیں تو کیا کہیں، اب تو سانس لینے پر ٹیکس لگانا رہ گیا، اگر کوئی نیا ٹیکس نہیں تو پھر 55سو ارب ریونیو اکٹھا کرنے کا آئی ایم ایف سے جو وعدہ کر رکھا، وہ کیا جادو کی چھڑی گھما کر اکٹھا کریں گے۔ یہ سنیں، غریبوں، تنخواہ داروں پر ٹیکس ہی ٹیکس، غریبوں کیلئے روز مہنگائیاں، لیکن امیروں کو رعایتیں ہی رعایتیں، حکومت نے 20ارب اسٹاک ایکسچینج کو دے دیئے، سنا جا رہا کے پی کے وزراء کی تمباکو فیکٹریوں کو رعایت دی گئی، ابھی پچھلے کابینہ اجلاس میں ایک سمری آخری لمحوں میں ایجنڈے سے ہٹالی گئی، ورنہ ایک اور انہونی، ہونی ہو چکی ہوتی، یہ کہانی کچھ اس طرح، وطنِ عزیز کے تاجروں، کمپنیوں نے سیلز ٹیکس کی مد میں ایک ٹریلین اکٹھا کر لیا مگر آگے حکومت کو ایک دھیلا نہ دیا، حکومت کو پتا چلا، نوٹسز بھیجے، جرمانے کئے، یہ محب وطن تاجر عدالت گئے، اسٹے لے لیے، اب اس کابینہ اجلاس میں وزارت خزانہ سمری لا رہی تھی کہ ان تاجروں کو معافی دے کر ان سے اونے پونے دام لے لیے جائیں، شکر ہے آخری لمحوں میں سمری کابینہ ایجنڈے سے ہٹا لی گئی، اسی طرح وہ پاور کمپنیاں جو اربوں روپے اضافی کھا کر بیٹھی ہوئیں، ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں، انرجی چوری، منی لانڈرنگ، کرپشن، کمیشن، کوئی ٹھوس اقدامات نہیں، بس سارا زور تنخواہ داروں، غریبوں پر، ان ہی پر ٹیکس لگاتے جاؤ، انہی کیلئے مہنگائی بڑھاتے جاؤ۔ یہ سنیں، اپنے فواد چوہدری نے بتایا، اسلام آباد چڑیا گھر کے شیر کیلئے مرغیاں آتیں، شیر مرغیوں کا انتظار کرتا رہتا، مرغیاں ڈائریکٹر چڑیا گھر کے گھر پہنچ جاتیں، کیا کہنے، جنگل کا بادشاہ بھی سوچتا تو ہو گا کہ اس اندھیر نگری سے تو ہمارا جنگل ہی اچھا، کم ازکم وہاں اتنی ناانصافی تو نہیں، ویسے ہم نے شیر بھی کو کہیں کا نہ چھوڑا، حکومتیں ہاؤس آف شریفس نے کیں، کھایا، پیا، موج اڑائی شریفوں نے لیکن بدنام ہوا شیر، ہر دوسرا شخص یہ کہتا پھرے، شیر یہ کھا گیا، شیر وہ کھا گیا، اصل صورتحال یہ کہ شیر بے چارے کی اپنی مرغیاں ڈائریکٹر کھا گیا، یاد آیا دوست رؤف کلاسرا اسلام آباد چڑیا گھر کے بیمار ہاتھی کا مقدمہ لڑ لڑ خود بیمار ہوگیا، رؤف کی دکھی باتیں سن سن ایک دن ہاتھی دیکھنے خود چڑیا گھر گیا، یقین جانئے 5منٹ کھڑا نہ ہو پایا، ایک ٹانگ موٹی زنجیر سے بندھی ہوئی، مکھیوں، مچھروں سے گھبرا کر مسلسل حرکت کرتا کیچڑ میں لت پت نقاہت زدہ ہاتھی، آنکھوں سے لگاتار بہتا پانی، یقیناً رو رہا ہوگا، اگلے دو تین دن ہاتھی کی بے چینی نے بے چین کئے رکھا۔ یہ سنیں، لمحہ بھر کیلئے جانوروں کی بدحالی کا رونا روک کر، یہ ملاحظہ کریں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے ہی بتایا، ہمارا فروخت ہونے والا منرل واٹر نقلی، منسٹر انکلیو، ایم این اے ہاسٹل کا پانی سو فیصد آلودہ، ملک کے 81ضلعوں میں پانی ٹیسٹ کرنے کی لیبارٹریاں ہی نہیں، دیہاتوں کا صرف 18فیصد پانی محفوظ، اندازہ کریں، وزیر کالونی، ایم این اے ہاسٹل کا پانی صاف نہیں، ملک بھر میں فروخت ہونے والا منرل واٹر نقلی، آدھے سے زیادہ ملک میں پانی ٹیسٹ کرنے کی لیبارٹری ہی نہیں، یہ بھی سنیں، 100ارب لاگت کا ’محفوظ پینے کا پانی‘ منصوبے کے ملازمین نکال دیئے گئے، دو سال تک پروجیکٹ ٹھپ پڑا رہا، یہ بھی سنتے جائیے، جب اسلام آباد بنا تب زیر زمین پانی 15فٹ پر تھا، اب 6سو فٹ پر جاکر پانی ملے اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر پاکستان میں سالانہ 8سو ملین ڈالر خرچ ہو رہے، آپ خود ہی سوچئے، جس معاشرے کا حال یہ ہو کہ وزیر، ممبران اسمبلی کے نلکوں، ٹونٹیوں میں بھی آلودہ پانی آ رہا ہو، ملک کے 81ضلعوں میں پانی ٹیسٹ کرنے کی کوئی لیبارٹری نہ ہو، منرل واٹر نقلی ہو اور سالانہ 8سو ملین ڈالر پانی بیماریوں پر خرچ ہو رہا ہو اور کسی کے کان پر جوں نہ رینگے بلکہ جہاں ایک ارب خرچ کر کے ’محفوظ پانی منصوبہ‘ دو سال بند رکھا، وہاں جانوروں کی کیا بات کرنی، جہاں سالانہ لاکھوں لوگ گندے پانی، جعلی دوائیوں کے ہاتھوں مر جائیں، وہاں شیر کی مرغیاں، بیمار ہاتھی کس کھاتے میں؟