لاہور (ویب ڈیسک) سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے جہاں حزبِ اختلاف کی صفوں میں موجود ان عناصر کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں جو منتخب ایوانوں کو لات مار کر ”سڑک سیاست‘‘ کا الائو دہکانے پر زور دیتے رہے ہیں، وہاں 14”چوروں‘‘ کی تلاش باہمی بداعتمادی کو نامور کالم نگار مجیب الرحمان شامی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ فروغ دینے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ وہ جو پنجابی کا محاورہ ہے کہ جس کے ہاں چوری ہوتی ہے، ایک تو اس کا مال جاتا ہے، دوسرا ایمان کہ اُسے ہر ایک پر شک ہونے لگتا ہے ،یہی حال اِس وقت حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا ہے۔بڑے بڑے رہنما لپیٹ میں ہیں،اور منتخب ارکان بھی ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے ٹٹول رہے ہیں۔ فیصلہ ہے کہ بہر قیمت خلاف ورزی کرنے والوں کا سراغ لگایا جائے گا۔ کھوج کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں، جو کھرا ناپیں گی اور بالآخر چوروں تک پہنچیں گی؛ اگرچہ یہ کہنے والے بھی کم نہیں ہیں کہ اس مارا ماری کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا،اس لیے صبر سے کام لیا جائے، اور اپنی چہرہ دھلائی کے لیے کوئی اور مورچہ لگانے پر توجہ کی جائے تاہم یہ کہنا آسان ہے، اسے سننا اور کرنا آسان نہیں ہے۔عقابی سیاست کے سینے میں رہ رہ کر ہوک اٹھتی ہے، اور اسے چین نہیں لینے دیتی ؎ کبابِ سیخ کی صورت ہم پہلو بدلتے ہیں ۔۔ جو جل جاتا ہے یہ پہلو، تو وہ پہلو بدلتے ہیں ۔۔ دہائی خدا کی، ایسا پہلے کبھی سنا نہ دیکھا کہ تحریک ِ عدم اعتماد‘ اس مقدس و مبارک ایوان میں کہ جو برابری کی بنیاد پر صوبوں کی نمائندگی کا غرور رکھتا (اور پالتا) ہے، بڑوں کو چھوٹا اور چھوٹوں کو بڑا کر دکھاتا ہے‘جب پڑھ کر سنائی گئی تو پورے 64ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر اپنے سر گنوائے، اور اس کے حق میں ہاتھ لہرائے، لیکن خفیہ ووٹنگ کے بعد جو گنتی ہوئی تو 64، پچاس رہ گئے۔ پانچ ووٹ مسترد قرار پائے کہ ان پر مہر لگانے والوں نے قواعد کی پاسداری نہیں کی تھی، اور (شاید) ڈبل مہر لگا دی تھی، جبکہ 9نے مزید کم ہو کر 64کا ہندسہ 50میں تبدیل کر دیا تھا۔ صادق سنجرانی کو منتخب ووٹ 45ملے، یعنی 45افراد نے ان کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد کو مسترد کیا، اس کے باوجود وہ اپنے منصب پر موجود رہے (اور رہیں گے) کہ ان کے خلاف کل ایوان کی اکثریت، یعنی 53 ووٹ نہیں پڑ سکے۔ وزیراعظم ،چیئرمین سینیٹ اورسپیکر قومی اسمبلی کو ان کے منصب سے الگ کرنے کے لیے حاضر ارکان کی اکثریت کافی نہیں ہوتی، بلکہ ایوان کے مجموعی ارکان کی اکثریت ثابت کرنا پڑتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ منتخب ایوانوں میں عمومی فیصلے حاضر ارکان کی اکثریت پر ہو جاتے ہیں۔ بجٹ بھی اِسی طرح منظور ہوتا ہے، اور قوانین بھی اِسی طرح منظور کئے جاتے ہیں، لیکن دستور میں ترمیم کے لیے پورے ایوان کی دوتہائی اکثریت کی حمایت لازم ہے، جبکہ عدم اعتماد کی تحریک کے لئے پورے ایوان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ ایک بار جو شخص وزیراعظم، سپیکر یا چیئرمین منتخب ہو جائے تو پھر اُس کے مخالفین کو پورا زور لگا کر اُس کے خلاف ووٹ اکٹھے کرنا پڑتے ہیں۔یوں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا ڈالی گئی ہے۔ صادق سنجرانی کو بھی اسی کا فائدہ پہنچا، ان کے خلاف پڑنے والے 50ووٹ بھی ان کے حق میں پڑنے والے45 ووٹوں پر بھاری نہ پڑ سکے۔ اکثریت کی حمایت کھونے کے باوجود ان کی مسکراہٹ، اپنے مخالفین کی ہنسی اُڑاتی رہی۔ اسباب اور اثرات پر بحث شدت سے جاری ہے۔ وفاقی کابینہ کے واحدگھاگ سیاست دان شیخ رشید نے چند ہی روز پہلے کہا تھا کہ حکومت کے پاس کئی تعویذ موجود ہیں۔ جب حاضر جواب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے پوچھا گیا کہ اس معرکے میں کون سا تعویذ استعمال کیا گیا ہے، تو وہ برجستہ بولیں کہ وہی جو صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کے لئے استعمال ہوا تھا۔اس سے کئی دوستوں کی نگاہیں اور انگلیاںآصف علی زرداری صاحب کی طرف اُٹھ گئیں کہ انہوں نے نیب کی تحویل میں بیٹھے بیٹھے کام دکھا دیا ہے۔ان کی منطق ہے کہ زرداری صاحب کھلاڑی ہیں،اور وہ ہر طرح کا کھیل کھیل سکتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے اندر نشاندہی کی جا رہی ہے کہ یہاں بھی پانی اونچی جگہ پر مرا ہے،اور یوں اپنے اپنے فائدے کے لیے سب کا نقصان کر ڈالا گیا ہے۔ کئی ثقہ دوست اس پر قہقہہ لگاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقے اپنی جیت پر قانع نہیں ہیں،وہ بداعتمادی کے بیج نہ صرف بو رہے ہیں،بلکہ ان کی آبیاری بھی کر رہے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ نہ صرف حزبِ اختلاف کی جماعتیں ایک دوسرے سے بدظن ہوں،بلکہ ان کے اندر اپنی اپنی لیڈر شپ بھی مشکوک ہو جائے۔اسے کہتے ہیں سونے پہ سہاگہ۔یا آم کے آم گٹھلیوںکے دام۔حزبِ اختلاف نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئیں، اس میں ایک سے بڑھ کر ایک سرد و گرم چشیدہ،بلکہ ”گرگِ باراں دیدہ‘‘ موجود ہے، اس لیے توقع رکھنی چاہئے کہ وہ اپنی صفوں میں دراڑوں کی پرورش کرنے کے بجائے اپنے اہداف پر نظر رکھے گی، اور آگے کی طرف قدم بڑھا پائے گی۔برادر عزیز احسن اقبال نے بڑے جوش و خروش سے اعلان کیا ہے کہ ”خفیہ بیلٹ‘‘ کو ختم کرنے کے لیے حکمت عملی تیار ہو گی۔ وہ تو اس خدشے کا اظہار تک کر گزرے ہیں کہ سینیٹ میں ہونے والی رسوائی جگ ہنسائی کا سبب بنی ہے، اور اس کام میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہو سکتا ہے۔منتخب ایوانوں کو داغدار کرنا کسی پاکستانی کو تو مطلوب و محبوب ہونے سے رہا۔ایک زمانہ تھا کہ عمران خان صاحب بھی سینیٹ کے انتخابات کے لیے صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی ”خفیہ بیلٹنگ‘‘ کا خاتمہ چاہتے تھے،لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی۔خان صاحب نے تو خیبرپختونخوا اسمبلی کے کئی اپنی ہی جماعت کے ارکان کے خلاف کارروائی کر کے انہیں نکال باہر کیا تھا، ان پر لگنے والے ہارس ٹریڈنگ کے الزام کے ساتھ انہیںاپنی صفوں میں جگہ دیئے رکھنا ان کی حمیّت کو گوارا نہیں تھا۔مسلم لیگ(ن) اور اس کے ہم نوا اس وقت ایسے آسمان پر تھے، جہاں اس طرح کی صدائیں سنی نہیں جاتیں۔اب خان صاحب زمین پر نہیں رہے تو وہ ان آوازوں کی طرف توجہ کیوں دیں گے؟ اس لیے احسن اقبال سے تمام تر ہمدردی کے باوجود ان کی توجہ اس طرف ضرور دلائی جائے گی کہ جناب، جن کھیتوں کی ہریالی آپ کو مطلوب ہے،خود آپ ہی کی چڑیاں ان کو کب کی چُگ چکی ہیں۔ویسے بھی یہ بات بڑی دلچسپ لگے گی کہ معزز اور باوقار منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ”صادق اور امین‘‘ اس اعتبار کے قابل نہ رہیں کہ بِلا خوف و رعایت اپنے ووٹ کا استعمال کر سکیں۔دستور سازوں نے جہاں جہاں ”خفیہ ووٹنگ‘‘ کی شرط عائد کی ہے، وہاں وہاں ان کا مطلب یہ بھی تو ہو گا کہ پارٹی ڈسپلن سے ماورا ہو کر ووٹ کا استعمال کیا جا سکے۔سینیٹ کے باغی ووٹروں کے حق میں یہ نکتہ استعمال کیا گیا ہے۔ فائدہ اٹھانے والے اس پر زور دے رہے ہیں۔اس میں وزن ہو سکتا ہے، لیکن اس سے اہم تر نکتہ یہ ہے کہ تحریک کے حق میں کھلے بندوں ہاتھ کھڑے کرنے والوں نے ”خفیہ رائے شماری‘‘ میں رائے کیوں اور کیسے بدل لی؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انہوں نے کچھ نہ کچھ مطلب کہیں نہ کہیں سے نکالا ہے، دال میںکچھ نہ کچھ کالا ہے… یہ کالک ہماری سیاست کے ماتھے پر صاف دیکھی جا سکتی ہے،کامیابی حاصل کرنے والوں کا چہرہ بھی اجلا تو نہیں رہا ؎ شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا مے خانے میں ۔۔ جبہ، خِرقہ، کُرتا، ٹوپی مستی میں انعام کی