لاہور : پاکپتن کے ڈی پی او کی معطلی نے بہت سوالات اٹھادئیے ہیں۔ چسکے دار کہانیوں کی فہرست بھی اس ضمن میں طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ میرے لئے اس تمام داستان میں بے حد پریشان کردینے والی خبر مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی کامل نظر آتی بے بسی ہے۔
نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔خبروں پر نگاہ رکھنے والے بے پناہ افراد کی طرح عمران خان کی جانب سے بزدار صاحب کے انتخاب نے مجھے بھی چونکادیا تھا۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے منصب کے لئے مجھے وہ انتہائی غیر مناسب انتخاب محسوس ہوئے تھے۔ اس کے باوجود میں نے بہت خلوص سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر جنوبی پنجاب کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے ان جیسے شخص کا انتخاب ضروری تھا تو عمران خان صاحب ان کے لئے فری ہینڈ کی فراہمی بھی ممکن بنائیں۔چودھری سرور کی بطور گورنر تقرری اس تناظر میں انہیں بزدار صاحب کا ’’مانیٹر‘‘ بناکر پیش کررہی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی جیسے تجربہ کار سیاست دان پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوچکے ہیں۔ بزدار صاحب شاید ان سے رہ نمائی لینے میں کوئی عار محسوس نہ کریں۔ چودھری سرور جیسے کردار جو شہباز شریف جیسے Hands Onوزیر اعلیٰ سے بھی اپنے لئے ’’کرنے کو کچھ‘‘ مانگتے پائے گئے تھے مگر انہیں بے اختیار دکھانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔پنجاب کابینہ کا انتخاب ہوا تو لاہور کے علیم خان صاحب کو سینئر وزیر کا لاحقہ بھی عطا ہوا۔
اس کابینہ میں یاسر نواز اور سبطین خان جیسے افراد بھی شامل ہیں جو کئی برسوں سے عمران خان صاحب کے چہیتے شمار ہوتے ہیں۔ کئی حوالوں سے یہ لوگ تحریک انصاف کے Old Guardsبھی ہیں۔ ایسے لوگوں کی پنجاب کابینہ میں موجودگی وزیر اعلیٰ کو Overshadow کرے گی۔ ’’رضیہ غنڈوں میں گھری‘‘ محسوس ہوگی۔ایک حوالے سے اگر سوچیں تو شاید پنجاب پر گزشتہ دس برسوں سے حاوی One Man Showکا متبادل ایک تگڑی کابینہ کی صورت ہی فراہم کیا جاسکتا تھا۔اجتماعی فیصلہ سازی کے رحجان کی حوصلہ افزائی جہاں اہم ترین فیصلے کوئی ایک شخص نہ کرے۔ ہر قدم بہت سوچ بچار اور باہمی مشاورت کے بعد اٹھایا جائے۔ ایسا ہوتا مگر ممکن نظر نہیں آرہا۔ پاکپتن کے ڈی پی او کی معطلی نے بلکہ سوال یہ بھی اٹھادیا ہے کہ بزدار صاحب کا ’’حتمی کنٹرول‘‘ کسی شخصیت کے پاس ہے۔بزدار صاحب کی حیران کن تعیناتی کے فوری بعد کے دنوں میں تحریک انصاف کے رہ نما سرگوشیوں میں ہمیں یہ بتاتے رہے کہ وہ جہانگیر ترین کا انتخاب ہیں۔ ترین صاحب کو جانے کیوں یہ اعتماد ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں ان کے خلاف صادق وامین کے حوالے سے سپریم کورٹ سے جو فیصلہ آیا تھا وہ نظر ثانی کے لئے زیر غور آئے گا۔
اس کی بدولت انہیں شاید Clean Chitمل جائے گی۔ وہ پنجاب اسمبلی کی کسی نشست سے ضمنی انتخاب کے ذریعے کامیاب ہوکر بالآخر بزدارصاحب کی جگہ سنبھال لیں گے۔ اس کالم میں مذکورہ خیال کو محض خوش گمانی قرار دیا گیا تھا۔ اگرچہ اس دعویٰ کی تردید میں ٹھوس شواہد موجود نہ ہونے کے سبب کر نہیں پایا کہ بزدار صاحب درحقیقت جہانگیر ترین کا انتخاب ہیں۔ پاکپتن کے ڈی پی او والے قصے نے اب اس دعوے پر بھی سوال اٹھادیا ہے۔
انتہائی معتبر ذرائع سے صرف مجھے ہی نہیں بلکہ مجھ سے کہیں زیادہ متحرک ومعتبر صحافیوں کو بھی یہ خبر ملی ہے کہ اگست 25کے پاکپتن میں پولیس ناکے والے قصے کے بعد متعلقہ ڈی پی او کو وزیر اعلیٰ کے دفتر طلب کیا گیا تھا۔وہ ڈی پی او اپنے چند سینئر افسروں کے ہمراہ وزیر اعلیٰ کے روبرو حاضر ہوئے تو وہاں موجود ایک شخص اپنا تعارف کروائے بغیر متعلقہ ڈی پی او کو حکم دیتا رہا کہ وہ خاور مانیکا صاحب کے آبائی ڈیرے پر جائیں اور وہاں ان سے پولیس ناکے پر ہوئے سلوک کے بارے میں معافی کی درخواست کی جائے۔حکم دینے والی شخصیت کا لہجہ بہت جارحانہ اور حاکمانہ تھا۔ یہ فرض کرلیا گیا کہ خود کو متعارف نہ کروانے والے ’’چٹ کپڑی‘‘ شخص کا تعلق کسی ’’ایجنسی‘‘ سے ہوگا۔
مذکورہ شخص اگر واقعتا کسی ’’ایجنسی‘‘ کا نمائدہ بھی ہوتا تو اس کا پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے دفتر میں بیٹھ کر پنجاب پولیس کے کسی افسر کو ڈانٹنے ڈپٹنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ بہرحال چاہے دکھاوے کے لئے سہی ہم ایک جمہوری نظام میں جی رہے ہیں۔حکومت یہاں عوام کے ووٹوں سے بنائے جانے کے دعوے ہوتے ہیں۔اگرچہ منتخب ہوئے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو بھی ایک ریاستی ادارے کی وردی پہنے شخص کی بے عزتی کا کوئی حق حاصل نہیں۔بے تحاشہ ضوابط 150برس سے پنجاب پولیس کو منظم فورس کی حیثیت میں قائم رکھنے کے لئے کتابوں میں واضح تحریر کی صورت موجود ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے اطلاق کے ذریعے محکمانہ انکوائری کا حکم دے کر کسی بھی پولیس افسر کو سبق سکھایا جاسکتا ہے۔بہت ہی پریشان کن حقیقت بالآخر مگر یہ دریافت ہوئی کہ پنجاب پولیس کے ایک افسر کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور سینئر پولیس افسران کی موجودگی میں ڈرانے دھمکانے والے شخص کا تعلق کسی ’’ایجنسی‘‘ سے ہرگز نہیں تھا۔ تقریباََ لطیفہ سنائی دیتی حقیقت بلکہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ شخص مبینہ طورپر ان اقبال گجر صاحب کا فرزند بتایا جارہا ہے جنہیں شہباز شریف نے چودھری پرویز الٰہی کے مقابلے میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے دوران کھڑا کیا تھا۔ یہ صاحب کس حیثیت میں دندناتے رہے؟ اس سوال کا جواب فراہم کرنا تحریک انصاف کے لئے ضروری ہے۔ بزدار صاحب بذاتِ خود پاکپتن واقعے کے بارے میں ساری حقیقت لوگوں کے سامنے رکھ کر اپنی ’’خودمختاری‘‘ ثابت کردیں تو شاید زیادہ بہتر ہوگا۔