نیویارک(ویب ڈیسک) خود کشی کرنا تو ایسے ہو گیا ہے جیسے کوئی معمولی چیز ہو۔ گزشتہ سال نیویارک سٹی کے ایک پارک میں مردہ پائی گئی دو سعودی بہنوں نے خودکشی کی تھی۔ پولیس کی معلومات کے مطابق دونوں گھر سے بھاگی تھیں اور پناہ کی تلاش میں تھیں۔ یاد رہے گزشتہ سال اکتوبر کے اختتام پر 16سالہ طلہ فاریہ اور 22 سالہ روتانہ فاریہ کی لاشیں نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں دریائے ہڈسن کے کنارے واقع ایک پارک سے ملی تھیں اور دونوں پاؤں اور کمر سے آپس میں ٹیپ سے بندھی ہوئی تھیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کی معلومات کے مطابق لاشوں کے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں دونوں کی خودکشی ثابت ہو گئی ہے۔ پولیس حکام نے کہا ہے کہ تفتیش میں یہ بات سامنےآئی ہے کہ دونوں بہنوں نے پناہ گزین کی درخواست دے رکھی تھی۔ دوسری جانب سعودی سفارتخانے کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے۔ سعودی سفارتخانے کی ترجمان کے مطابق دونوں بہنیں امریکی ریاست ورجینیا کے شہر فئیر فیکس میں اپنی والدہ کے ساتھ رہ رہی تھیں لیکن بڑی روتانہ نیویارک میں منتقل ہوگئی تھی ۔ایک اطلاع کی معلومات کے مطابق وہ وہاں کسی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھی اور دوماہ قبل اس کی چھوٹی بہن طلہ فاریہ بھی ماں کو بتائے بغیر اس کے پاس آگئی تھی۔ یہ خاندان سعودی شہری ہے اور اس کا تعلق ساحلی شہر جدہ سے ہے۔ واضح رہے گذشتہ برس خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی اٹھانے پرسعودی عرب کے فیصلے کو عالمی سطح پر سراہا گیا تاہم وہاں خواتین پر پابندیاں اب بھی موجود ہیں جن میں خاص کر مرد کی سرپرستی کا نظام شامل ہے جس کے تحت کسی عورت سے متعلق اہم فیصلے کرنے کا اختیار اس کے والد، بھائی، خاوند یا بیٹے کے پاس ہے۔ ان پابندیوں کے مثال چند دن قبل ایک مرتبہ پھر اس وقت منظر عام پر آئی جب ایک جواں سال سعودی خاتون نے بینکاک میں ایک ہوٹل کے کمرے میں خود کو بند کر کے یہ کہا کہ اگر انھیں واپس گھر بھیجا گیا تو انہیں قید کیے جانے کا خطرہ ہے۔