اسلام آباد (ویب ڈیسک ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر اور تیل ادھار دینے کے بدلے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے ،ْ ہم پر مدینے والا کا کرم ہوگیا ہے ،ْ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں ملازمت کا حالیہExternal Affairs Minister Shah Mehmood Qureshi revealed a big deal
ریلیف کوئی تعلق نہیں ،ْنواز شریف اور ان کا خاندان شاہی فیملی کے ریڈار میں مجھے نظر نہیں آرہا ہے ،ْپاکستان تمام ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے ،ْ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات ہورہی ہیں ،ْ ہم محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں ،ْچاہئیں گے کہ مسئلہ بہترطریقے سے حل ہو۔بدھ کو ایک انٹرویومیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ سعودی عرب سے ریلیف لینے کی نوازشریف حکومت بھی کوشش کرتی رہی اور اس سے پہلے جب آصف علی زر داری صدر تھے اور پیپلز پارٹی کی نئی نئی حکومت آئی تھی اور میں وزیر خارجہ تھا اس وقت بھی ریلیف کی کوشش کی گئی تھی مگر کامیابی نہیں ملی تھی ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشکل وقت میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کیلئے ریلیف کو مدینے والا کرم قرار دیتے ہوئے کہاکہ مدینے والا کا ہم پر کرم ہوگیا ہے ۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر کی امداد اور تیل ادھار دینے پر کوئی شرائط عائد نہیں کی گئی ۔ انہوںنے کہاکہ سعودی عربچاہتا ہے کہ پاکستان مستحکم ہو ،ْ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ تعاون کیا ہےاور جب بھی پاکستان کو کوئی مشکل پیش آئی تو سعودی عرب نے بھی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ تعاون کیا ہے ۔ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں ملازمت کا حالیہ ریلیف کوئی تعلق نہیں ہے ،ْ سعودی عرب کی جانب سے کوئی شرئط عائد نہیں کی گئی ۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف اور ان کی فیملی شاہی خاندان کے ریڈار میں نظر نہیں آرہا ۔ایک سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستانسب سے اچھے تعلقات رکھنے کا خواہش مند ہے۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل بارے سوال پر وزیر خارجہ نے کہاکہ استنبول میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے ،ْ معاملے کی تحقیقات ہورہی ہیں ،ْ پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں ،ْ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے ہم محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ ہم چاہئیں گے کہ مسئلہ بہتر طریقے سے حل ہو ۔انہوںنے کہاکہ سعودی عرب کا اپنا قانون ہے اور ترکی کا اپنا قانون ہے وہ کیا کہتا ہے ،ْ دونوں کو بیٹھ کر جمہوری انداز سے اس معاملے کو حل کر نا چاہیے ۔