برمنگھم (ایس ایم عرفان طاہر سے) تعلیمی اداروں کے نظم و نسق کے اثرات مثبت یا منفی وہاں پڑھنے والے طلباء و طالبات پر مرتب ہو تے ہیں، جرائم کی بیخ کنی، بد امنی، دہشتگردی اور انتہا پسندی کے جڑ سے خاتمہ کے لیے بچپن سے بچوں کو قانونی تعلیم دینا ہو گی، برطانیہ کو دہشتگردی سے مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے سوشل میڈیا کے حوالہ سے Terriorism Act 2006 کا اطلا ق اور پھر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔
ان خیالا ت کا اظہا ر برطانوی ٹیچر شائستہ بی نے نوجوان صحافی و معروف کالم نگا ر ایس ایم عرفان طا ہر کو خصوصی انٹرویو دیتے ہو ئے کیا۔ شائستہ بی کا کہنا ہے کہ جب دس سال کی عمر سے بچوں پر کریمنل لاء لا گو ہوتا ہے تو پھر انہیں اس حوالہ سے قبل ازیں تعلیم و تربیت اور شعور و آگہی کا اقدام اٹھانا بھی بے حد ضروری ہے۔
انہو ں نے کہاکہ میں نے 2011 سے سکول میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کے ساتھ وقت گزار کر اس بات کو شدت سے محسوس کیا ہے کہ بچپن سے پیدا ہو نے والا بگاڑ تا حیات انسان کے ساتھ چلتا ہے اور فطری طور پر انسان کی زندگی کا حصہ بن جا تا ہے بچے روز مرہ معمولات میں جب قانون کی خلا ف ورزی کرتے ہیں یا قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اس وقت انہیں اسکی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ نہیں ہو تا ہے اور نہ ہی اس کے حوالہ سے کوئی جزا سزا کا پہلو انکے مد نظر ہوتا ہے ۔ دوسری طرف بعض تعلیمی اداروں کا نظم و نسق کے حوالہ سے خاصا فقدا ن ہی دکھائی دیتا ہے جس کی بدولت بچوں کو اپنا احساس جرم اور ملا مت بھی ہرگز نہیں رہتی ہے۔
انہو ں نے تفصیلا ت بتا تے ہو ئے کہا کہ قانونی تعلیم بچوں کے نصاب کا حصہ اس لیے بھی بننی لازم ہے کہ یہ موجودہ دور کا تقاضا بھی ہے اور ہما ری ضرورت بھی کسی بھی مہذب اور پڑھے لکھے معاشرے کا امن و امان اور تحفظ قائم رکھنے کے لیے یہ تعلیم اہمیت کی حامل ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ درحقیقت بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ انکے گھر کے ماحول اور والدین پر بھی منحصر ہو تا ہے ہما رے معا شرے میں جہا ں بچوں کو گھر میں انتہائی سخت ماحول یا انتہائی نرم ماحول ملتا ہے تو انکی عادات پر مثبت یا منفی اثرات مرتب ہو تے ہیں اسی طرح جو والدین گھروں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے ہیں یا طلا ق کی نوبت آن پڑتی ہے والدین میں سے کوئی ایک والد یا والدہ بچے کی تربیت کرتی ہے تو اسوقت بھی شاید بے جا محبت اور لاڈ پیا ر کی وجہ سے بھی بچے کی عادات و اطوار تبدیل ہو جا تی ہیں اسکے علاوہ بچوں کی ایک الگ دنیا ہے جس میں وہ جو فلموں اور ویڈیو گیمز کے اندر ہو تا ہو ا دیکھتے ہیں تو اس پر عمل ظا ہر کرتے ہیں ۔ والدین کی روزمرہ مصروفیات اور معاش کی پر یشانیوں کی وجہ سے بھی بچوں کو وقت نہ دینے کی بدولت خاصے مضر اثرات مرتب ہو تے ہیں اسی طرح بچوں کی بیرونی دوستیاں بھی منفی یا مثبت حرکات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
انہو ں نے کہا کہ تعلیمی اداروں یا گھروں کے اندر جب انہیں قانون یا ضا بطوں کے حوالہ سے بنیا دی آگاہی حاصل نہیں ہوگی تو پھر وہ کس طرح سے اس بات کو ذہن نشین کر سکتے ہیں کے کون سی حرکت خلا ف قانون اور جرم ہے اگر ابتدائی عمر سے ان تمام معلومات کی فراہمی کو یقینی بنا لیا جا ئے تو بچوں کو رفتہ رفتہ عمر کے ساتھ ساتھ ذہنی پختگی اور مثبت سوچ انہیں مزید بہتر اور امن و تہذیب کا سفیر بنا سکتی ہے۔
انہو ں نے کہا کہ ماضی کے اندر 1993 میں James Bulger لاء اس وقت سامنے آیا جب دس سال کی عمر کے دو بچے اپنے ایک دس سالہ ساتھی کو باہر ساتھ لے گئے اور اسے پتھر ، تارو اور دیگرآلوں کے ساتھ مار مار کر قتل کردیا یہ مثال ہما رے لیے خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ قبل ازوقت کسی سانحے یاحا دثہ کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اپنا لینا ہی فہم و فراست اور حقیقی تعلیمات کا تقاضا ہے اس سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ دس سال کی عمر میں اگر بچے جرم کی گنائو نی دنیا میں قدم رکھ سکتے ہیں تو اگرپہلے سے ہی انکو قانونی تعلیم کے حوالہ سے تعارف کروادیا جا ئے اور انہیں قانون کی پاسداری کی تلقین کی جا ئے تو وہ کیونکر کسی غیر قانونی حرکت کو اپنا سکتے ہیں ۔ انہو ں نے کہاکہ 10 سالہ بچے پر قانونی گرفت ہوسکتی ہے اس حوالہ سے ججز اور وکلاء جا نتے ہیں لیکن عام بندے کو اس بارے میں نہیں پتا ہے۔
بچوں کو اس قانون با رے معلومات فراہم کرنا چا ہیے اس کے کوئی بھی منفی اثرات نہیں ہیں بلکہ مثبت انداز میں بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور اخلاقیات اور انکی شخصیت میں نکھا ر پیدا کرنے کے لیے یہ معلومات از حد ضروری ہیں ۔ جب بچے کو اس بات کا ادراک ہوگا کہ کسی دوسرے شخص کی حق تلفی کرنا یا اسے ایزا پہنچانا درست نہیں ہے چو ری خلاف قانون ہے جرائم کا ارتکا ب سزا کی طرف لیجاتا ہے اور دہشتگردی و انتہا پسندی عالمی جرائم کے اندر آتے ہیں تو اس پر وہ تا عمر احتیاط برتیں گے انکو کوئی بھی منفی قوت استعمال نہیں کرسکے گی اور نہ ہی انکی ذہن سازی کرکے انہیں دوسرے جنگی جرائم اور انسانوں کو بے سبب نقصان پہنچا نے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا ۔عظیم برطانیہ کے اندر سرکاری سطح پر Prevent کے زیر اہتمام اساتذہ کو محض انتہا پسندی دہشتگردی اور جرائم کی نشاندہی بارے آگاہی دی جاتی ہے مختصر ترین لیکن اگر کریمنل لاء کے حوالہ سے بچوں کو بھی شعور و آگہی کا ایک باضابطہ پروگرام شروع کیا جا ئے تو اس سے خاصے مثبت اثرات وضح ہو نگے بلکہ گراس روٹ لیول پر جرائم کی بیخ کنی دہشت و وحشت شرانگیزی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔
تقریبا ساتویں کلا س سے کریمنل لاء بارے معلومات فراہم کی جا نی چاہیں اور یہ بچوں کے نصاب کا لازمی حصہ بنایا جا ئے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ جرائم کے حوالہ سے معلومات فراہم کی جاسکیں ۔ کریمنل لاء کے حوالہ سے تعصب اور اشتعال انگیزی کے بڑھتے ہو ئے واقعات کو بھی روکا جا سکتا ہے جب بچپن سے یہ تعلیم دی جا ئے گی کہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اس میں تمام مذاہب اور مسالک کا ادب و احترام ہم پر لازم ہے کسی گو رے کو کالے اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے بلکہ انسانیت کے تحت ہر ایک کے نظریا ت مذہبی آزادی اور عزت و احترام ہم پر لازم ہے اور اس وطن عزیز کے شہری ہو نے کے ناطے سب سے برابری کا سلوک روا رکھا جا تا ہے تو پھر یہ تعصب ، فتور اور ناچاقیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہرایا جا سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ نامساعد حالات میں جبکہ مسلم کمیونٹی کی نوجوان لڑکیا ں اور لڑکے نام نہا د جہا د اور دیگر ہتھکنڈوں میں پھنس کر اس مہذب معاشرے کو خیرآباد کہتے ہو ئے دہشتگردی اور انتہا پسندی کی دنیا کے مسافر بنتے جا رہے ہیں تو اس نازک دور میں بھی یہ مثبت اقدام بہت فا ہد ہ مند ثا بت ہوسکتا ہے۔
جب نوجوان نسل کو حقیقی اسلامی تعلیمات اور بحیثیت برطانوی شہری اپنی ذمہ داریوں کا احسن انداز میں احساس ہو گا تو وہ کبھی بھی یہ غلط قدم نہیں اٹھا ئیں گے اور نہ ہی کوئی منفی قوت انہیں اپنے عزائم کے لیے استعمال کرنے کی جرات کرسکے گی مستقبل قریب میں اس وباء سے مکمل طور پر نجا ت حاصل کرنے کے لیے اور اپنی آمدہ نسلوں کو علم و امن اور باہمی تعاون و روادری کا درس دینے کے لیے ہمیں بنیا دی تعلیم میں کریمنل لاء کو لازمی شامل کرنا ہو گا ورنہ ہماری آنے والی نسلوں کو جرائم انتہا پسندی بد امنی شر انگیزی تعصب اور دہشتگردی کی دنیا سے بیزاری کا پیغام کوئی نہیں دے سکے گا۔
شائستہ بی کامزید کہنا ہے کہ اس مسئلہ کے حوالہ سے میں 450 ممبر برطانوی پارلیمینٹ اور لیڈر سٹی کونسل برمنگھم کو معلوماتی درخواستیںارسال کرچکی ہوں مختلف سکولوں اور تعلیمی اداروں میں لیکچرز کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے اس پر عملدرآمد کے حوالہ سے تمام باشعور افراد کو اپنی بساط کے مطابق کوشش ضرور کرنی چا ہیے۔