امن پسندی ایک ایسا تخیل ہے جس سے ہر ذی شعور شخص شناسا اور اس کے فروغ کا خواہش مند مگر اس جہاں کو نا جانے کس کی نظر لگ گئی کہ کسی کو امان حاصل ہی نہیں رہا ہر کوئی مشکل سے گزر رہا ہے۔ تیراں نومبر سے لیکر اب تک فرانس کے دارلحکومت پیرس میں حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 178 افراد لقمہ اجل بنے اور پھر وہ ہی ہوا ہر کسی نے اپنی تنقید کے نشتر چلائے مسلمانوں کو دہشتگرد کہنا شروع کر دیا جبکہ اعراق کا یہ انکشاف ہے کہ ممکنہ دہشتگردی ہونے کے بارے میں امریکہ اور فرانس کو پہلے ہی مطلع کردیا تھا۔
دہشتگردی کسی کی سانجھی نہیں سب کو اس سے شدید نفرت ہے مگر خیف ہے اُن ہستیوں پر جنہوں نے اسے ایک قوم سے موسوم کرنے کی کوشش کی اور اپنے انتہا پسندانہ زاویوں سے پوری مسلم قوم کا چہرہ مسخ کیاوہاں موجود مساجد کو بند کروایا گیا اور انہیں نہ کھولنے دینے کا عندیہ دے دیا گیا مسلم پناہ گزینوں پر آفتوں کے پہاڑ گرائے گئے۔وہ جگہ جہاں غلاظت سے بھرپور ملعون چارلی ہیبڈو ہمارے آقا سرورِ کونین کے توہین آمیز خاکے بنائے اُسے کچھ نہ کہا جائے اور پھر مقامی حکومت کے ایکشن نہ لینے کے بعد جب حملہ ہو اُس کے بعد بھی اس طرز کی سرگرمیوں پر پابندی نہ لگائی جائے اور کسی ناخوشگوار واقع کے لیے خود کا چوکنا بھی نہ کیا جائے اور سارا قصور دوسروں کا ہے سمجھا جائے تو یہ دقائق سے عاری ہونا کہلائے گا۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ ان حملوں کے پیچھے داعش ہے اور پھر داعش نے جلد ہی ذمہ داری قبول کرلی وہ ارزاں طرز کے جہنمی جو اس دہشتگرد تنظیم میں ہیں قطعی طور پر مسلمان نہیں بلکہ اسرائیل کی ایک بہت بڑی سازش ہے ۔امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا کہ” مسلمان دہشگرد نہیں بلکہ ایک مسلمان گروہ دہشتگرد ہے جسے جلد تباہ کردیں گے اور ہر صورت داعش کا خاتمہ یقینی بنائیں گے” مگر کیا (Air-strikes)کر کہ سینکڑوں سیولینز کا قتلِ عام کوئی بھی جرم اور دہشتگردی نہیں ہے؟ کیا دہشتگردی کا خاتمہ کرنے کی آڑ میں کھلم کھلا اسے خودکرنا درست ہے؟۔
امریکہ ،اقوامِ متحدہ اور فرانس کو اپنی اس روش کی درستی کرنے سوچ بچار کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن افسوس کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ،ارے سب کچھ ظاہر ہے پر پتہ نہیں کیوں کسی کو دہشتگردی وحشت سے گزرتے مسلمان ممالک نظر نہیں آرہے بارود کا اٹھتا تعفن بصیرت پر عیاں نہیں ہو رہا۔ننھے پھولوں کے پرخچے اڑتے نہیں آرہے، انسانیت کا کانپنے پر نگاہ نہیں پڑ رہی۔سوشل میڈیا سائٹ پر فرانس سے اظہارِ ہمدردی کا فیچر متعارف ہوا تو بہت سے لوگوں نے اپنی پروفائل پیکچر پر اس ملک کا جھنڈا چسپا کر لیا اور کچھ نے اس پر شدید تنقید کی کہ غزہ ،فلسطین،شام جیسے ملکوں میں ہوتی بربریت اور سفاکی پر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟ مگر میرا یہ موقف تھا کہ تصویر بدلنے سے نہ توکوئی ساتھ دینے کا حق ادا ہوتا ہے نہ ہی احساس کا تبادلہ ہوتا ہے۔
بہر حال بطور بشر اس کی مذمت لازمی ہے اور دکھیاروں سے اظہارِ ہمدردی ان کی ہمیت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کیونکہ اسلام ہمیں مسلمان نہیں انسانیت پر سلامتی اوراس کی فوز و صلاح کا حکم دیتا ہے۔یو این سیکیورٹی کونسل نے ہر رکن ملک کو دولتِ اسلامیہ نامی تنظیم کے خاتمے کے لیے ہر ضروری قدم اٹھانے کی منظوری دے دی جس کے بعد سے اب تک شام میں کیئے جانے والے حملوں میں کثیر تعداد میں معصوم بچوں ،عورتوں سویلینزہی کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ اتارا گیا تاہم چند ایک مقامات پر اس مکرو وقَبیح دہشتگرد تنظیم کے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ترکی اور روس کی بھیڑ چال بھی سامنے ہے اور دونوں میں بہترین تعلقات ہونے کے باوجود ترکی نے روسی جہاز مار گرایا اور روس کا اس پر سخت ردِعمل بھی آیا اور ترکی کو داعش کا حامی قرار دیا گیا۔
اور امریکا نے ترکی کے اس قدم کوسراہا کہ ترکی کو اپنی حفاظت کا حق میسر ہے پچھلے کئی سالوں سے ورلڈ وار تھری کے آثار پر بات کی جارہی ہے مگر میں نہیں سمجھتا کہ یہ آن پہنچی ہے ۔روس نے ان حملوں سے قبل ایسی کسی بھی ائیرسٹرائک اور تباہی پھیلانے سے انکار کیا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کافی ہے ایسے انہیں خاموش نہیں کیا جاسکتا کسی ایک گروہ کی وجہ سے پوری کمیونٹی کو کرب میں مبتلا نہیں کیا جانا چاہیے
لیکن اس سوچ کے تقابل میں اب وہ بھی دوبارہ سے بمباری کرنے میں حصہ دار بن بیٹھا ہے لہٰذا اپنے کیے جانے والے اقدامات پر ان ممالک کو تفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک مکرو جماعت اور گروہ کے خاتمے کی نوید دیکر شریف النفس شہریوں کو شہید کرنا کوئی عذر نہیں ہے۔افراتفری کے اس عالم میںکون ہے جو قوم پرست نہیں ہے ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے اور انسانیت شرمندگی کے دہانے پر ہے ہر طر ف خوف اور خشیت منڈلائے جارہے ہیں دہلا دینے والے مناظر عام ہوگئے ۔
آسودگی ومستحکم سکون کے لیے ہمیں ہر ایسی چیز کا بھرپور قلع قمع کرنا ہے جو انسانیت پر ظلم ڈھاتی ہو۔اسرائیل کی سازش ہے کہ انہوں نے اس گھٹیا تنظیم کو تیار کیا تاکہ مسلمان ممالک میں عدم استحکام اور بربریت کو ترویج دی جا سکے اور امن کے سفیر کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کوقتل کیا جائے تاکہ سپر پاور ملک کی طاقت کی ٹھاٹھ دھائی دے۔
اگر سب امن چاہتے ہیں تو یہ ہمارے فعل پر موقوف ہے نہ کہ محض قول پر اس لیے تمام تر طاقت کے نشے میں چُور لوگوں کو چاہیے کہ وہ نہ اتنی ہولناکی کریں جسے بعدازاں برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں اگرمخصوص گروہ کا خاتمہ مقصد ہے تو اس میں مسلمان ممالک کی مشاورت بھی شامل ہونی چاہیے اور ایک تنظیم کو برباد کرنے کے نعرے تلے ،خانہ جنگی اور عام شہریوں کا قتلِ عام نہیں کروانا چاہیے۔شام ،اعراق وغیرہ سمیت مختلف مسلمان ممالک میں اندوہناک سانحات کی روک تھام بھی ضروری ہے کیونکہ ایک گروہ کے تعاقب میں ان اقوام پر حملے کرنا بھی دراصل دہشتگردی ہے۔